ابراہیمی معاہدہ کیا ہے؟ – ایکسپریس اردو

سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیجیے کہ یہ کوئی ایک معاہدہ نہیں ہے بلکہ معاہدوں کے مجموعے کو ابراہیمی معاہدہ یا ابراہیمی معاہدے کہتے ہیں۔ صدر بل کلنٹن کا دور صدارت 1993 سے 2001 تک تھا۔ ایک دفعہ انھوں نے اپنے دور صدارت کے دوران کہا تھا کہ’’ مجھے نہیں پتہ کہ مسلمان اور یہودی آپس میں کیوں لڑتے ہیں؟ یہ تو آپس میں کزن ہے۔‘‘

ان کا اشارہ یہ تھا کہ یہ دونوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دونوں بیٹوں حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولادیں ہیں اور یوں یہ آپس میں کزن ہوئے، ہرچند کہ اب ان کا یہ بیان ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ابراہیمی معاہدے کا آغاز 2020 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں ہوا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اس کی بنیاد تو 1979 میں مصر اسرائیل معاہدے کے ساتھ رکھ دی گئی تھی جس کو دنیا کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے نام سے جانتی ہے اور ویسے بھی اس وقت تک ابراہیمی معاہدے کی اصطلاح کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ اس معاہدے کے ذریعے مصر نے اسرائیل کے ساتھ اپنی جنگ کا خاتمہ کیا، یہ الگ بات ہے کہ بعد میں یہ معاہدہ انور سادات کی جان لے گیا۔

اسی معاہدے کی دوسری قسط 25 جولائی 1994 میں چلی جب اردن کے شاہ حسین نے وائٹ ہاؤس کے روز گارڈن میں اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابن سے ملاقات کی، جہاں انھوں نے واشنگٹن ڈیکلریشن پر دستخط کیے۔ جس سے اردن اور اسرائیل کے درمیان 46 سال سے جاری جنگ کا باضابطہ طور پر خاتمہ ہوا۔ آخرکار، 26 اکتوبر 1994 کو اردن نے اردن،اسرائیل امن معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے سے دونوں ممالک کے تعلقات معمول پر آئے اور ان کے درمیان علاقائی تنازعات کا خاتمہ ہوا۔ آج اردن اسرائیل کا بالواسطہ نگہبان ہے۔

2000 سے پہلے ہی اسرائیل نے دو مسلمان ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات بہترکر لیے تھے۔ اس دوران بہت سارے سنی مسلمان ممالک کے حکمران اپنی حکومت بچانے کے لیے اسرائیل سے پس پردہ گفت و شنید اور مفاہمت کا آغاز کر چکے تھے۔ انھیں خطرہ شیعہ ایران سے تھا۔ ان تعلقات کا آغاز 2010 کی دہائی میں ہوا اور 2018 تک یہ روابط زیادہ نمایاں ہوگئے تھے، جن میں اسرائیلی حکام کے خلیجی دورے اور محدود فوجی و انٹیلیجنس تعاون کا آغاز شامل تھا۔ امریکا نے عرب ممالک کو ایران سے ڈرانے اور اسرائیل کی قانونی حیثیت کو قبول کروانے کا ایک منصوبہ بنایا اور اس منصوبے کا نام ابراہیمی معاہدہ رکھا گیا کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اسلام، یہودیت اور عیسائیت یعنی تینوں بڑے مذاہب ایک معزز پیغمبر سمجھتے ہیں۔

یہودیوں کو آخری نبی کے آنے کا پورا یقین تھا لیکن وہ یہ سمجھتے تھے کہ وہ نبی حضرت اسحاق علیہ السلام کی نسل سے ہوگا، اسی لیے انھوں نے حضرت محمد ﷺ کو ماننے سے انکارکیا اور قرآن میں بہت سی جگہوں پر اس کا ذکر ہے۔ ہم واپس ابراہیمی معاہدے پر آتے ہیں۔ اسرائیل اور امارات کے درمیان 13 اگست 2020 کو معاہدے کے اعلان کے چند گھنٹوں بعد ہی بحرین کے حکام نے جیرڈ کشنر اور اوراہم برکووٹز کو پیغام دیا کہ ہم اگلا ملک بننا چاہتے ہیں۔ بالآخر 15 ستمبر 2020 کو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو، اماراتی وزیر خارجہ عبداللہ بن زاید النہیان اور بحرینی وزیر خارجہ عبد اللطیف بن راشد الزیانی نے وائٹ ہاؤس کے جنوبی لان میں واقع ٹرومین بالکونی پر معاہدوں پر دستخط کیے۔ یہ شاندار تقریب ماضی کے اہم معاہدوں کی طرز پر منعقد کی گئی تھی۔

اسرائیل سوڈان میں تعلقات معمول پر لانے کا معاہدہ 23 اکتوبر 2020 میں ہوا اور یوں مصر، اردن، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے بعد سوڈان پانچواں عرب ملک ہوا کہ جس نے اسرائیل سے معاہدہ کیا، ہرچند کہ یہ معاہدہ 2024 تک غیر تصدیق شدہ رہا۔ 10 دسمبر 2020 کو صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ اسرائیل اور مراکش نے مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ انھیں اچھی طرح سے پتہ ہے کہ مشرق وسطی کا سب سے اہم ملک سعودی عرب ہے، اسی لیے اس پر سب سے زیادہ دباؤ اس معاہدے میں شامل ہونے کے لیے ہیں۔ اس سے آپ کو پاک سعودی دفاعی معاہدے کے بارے میں بھی بہت کچھ سمجھنے میں مدد ملے گی۔ صدر ٹرمپ تو دیگر مسلمان مگر غیر عرب ممالک کو بھی اس کا حصہ بنانا چاہتے ہیں ۔

آپ لوگوں کو پتہ ہے کہ صدر ٹرمپ کے بیس نکاتی امن منصوبے کی آٹھ مسلم ممالک نے تائید کی ہے ۔ یوں سمجھ لیجیے کہ مسلمان ممالک کے لیے مسئلہ فلسطین تو اب پس منظر سے بھی غائب ہوچکا ہے اور ہر ملک اپنی قیمت کا تعین کرکے ابراہیمی معاہدہ کر رہا ہے، مگر آخر میں ساری قیمتیں دھری کی دھری رہ جائے گی اور ہوگا وہی جو اسرائیل چاہے گا۔ اس کالم میں ہم نے اختصار کے ساتھ ابراہیمی معاہدے کی تاریخ اور ایک عمومی جائزہ پیش کیا ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ آنے والے دن بہت ہیجان انگیز اور ہنگامہ خیز ہوں گے۔ صدر ٹرمپ کا یہ دور صدارت دنیا پر دورس نتائج کا حامل ہوگا۔ ہم اپنے قارئین کو یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ ریاست اسرائیل اور جمہوریہ ترکیہ کے مابین دو طرفہ تعلقات ہیں۔ اسرائیل اور ترکیہ کے تعلقات باضابطہ طور پر مارچ 1949 میں طے پائے تھے اور ترکیہ اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے والا پہلا مسلمان اکثریتی ملک بنا تھا۔

ابراہیمی معاہدہ اسرائیل کو مسلمان ریاستوں سے ایک قانونی ریاست کے طور پر قبول کروانے کی ایک کوشش کا نام ہے اور اگر آپ اس سے زیادہ سچ پڑھنے کے لیے تیار ہیں تو یوں سمجھ لیجیے کہ ابراہیمی معاہدہ وسیع تر اسرائیل یا گریٹر اسرائیل کی جانب دوسرا قدم ہے کیونکہ اسرائیل کو تسلیم کرکے چند مسلمان ریاستیں پہلے ہی پہلا قدم اٹھا چکی ہے اور اب تو اسرائیل کے دوڑنے کی باری ہے۔ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ ریاست کو عقائد نہیں بلکہ مفادات کے تحت چلانا چاہیے اور تمام عرب اور غیر عرب ممالک کو پتہ ہے کہ اب ان کا مفاد کہاں ہے اورکس میں ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں