کمسن بچیوں اور ان کی والدہ کے اغوا کے بعد اسی فیملی کیخلاف مقدمات درج کرنے پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے پولیس اہلکاروں کے بظاہرشہریوں کے اغوا، زبردستی گھروں میں داخلے، ڈکیتی اور جھوٹے مقدمات بنانے میں ملوث ہونے کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ایس ایس پی انوسٹی گیشن کو کم سن بچیوں کی والدہ کا بیان قلمبند کرکے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے ایک شہری محمد وقاص کی مشرف رسول کی جانب سے درج کرایا گیا مقدمہ خارج کرنے کی درخواست پر سماعت کی۔
عدالت نے کہا ویڈیو میں واضح ہے کہ تین بچیوں اور والدہ کو اغواء کیا گیا۔ بچیوں کے والد نے جو بھی کیا ہواسے اس کی سزا ملے گی ۔ بچیوں اور والدہ کے ساتھ کیوں زیادتی کی گئی ؟جعلی مقابلے کے بعد بچیوں کو چائلڈ پروٹیکشن سنٹر بھجوا گیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب خود خاتون ہیں وہ متاثرہ خاتون اور بچیوں کے اغوا کا معاملہ ضرور دیکھیں۔
ڈائریکٹر کرائمز ایف آئی اے پولیس اہلکاروں کے اغوا میں ملوث ہونے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دیں۔پولیس رپورٹس جمع ہونے کے بعد ایف آئی اے اس کیس کی تفتیش کرے گی۔
اصل الزام پنجاب پولیس پر ہے کہ اُنہوں نے یہ سارا واقعہ کیا۔اس کیس کی تحقیقات کیلئے ڈائریکٹر ایف آئی اے کی سربراہی میں خصوصی جے آئی ٹی ضروری ہے۔
آئی جی اسلام آباد عدالت پیش ہوئے اور بتایا کہ اس سارے معاملے کی تحقیقات کیلئے ہم نے ایک خصوصی ٹیم بنائی ہے۔
اسپیشل فورس کے مطابق تھانہ کھنہ میں ایک گاڑی کی چوری کا مقدمہ درج تھا۔عدالت نے کہا جس ایف آئی آر کا آپ حوالہ دے رہے وہ کب درج ہوئی ؟پنجاب پولیس نے ان گاڑیوں کو گھر سے نکالا جس کی فوٹیج موجود ہے۔ اس کیس میں پولیس تفتیش نہیں کرے گی کیونکہ پنجاب اور اسلام آباد پولیس پر اس کیس میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔
درخواست گزار کے وکیل لطیف کھوسہ نے آئی جی کے بیان پر عدم اعتماد کا اظہارکیا۔ عدالت نے کہاانہوں نے تفتیش کرلی ہے اب رپورٹ جمع کرانے دیں،پولیس رپورٹ کے بعد ایف آئی اے معاملے کو دیکھے گی۔
پنجاب میں خاتون وزیر اعلیٰ ہے مگر پنجاب پولیس نے چادر چار دیواری کو پامال کیا،ایک خاتون کو بچیوں سمیت گھر سے اٹھا کر تھانے میں بند کردیا گیا۔
لطیف کھوسہ نے گاڑیوں کی حوالگی کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے کہاکہ یہ اب کیس پراپرٹی ہے، گاڑیاں ابھی نہیں مل سکتیں۔ کیس کی سماعت نومبر کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کردی گئی۔
