امریکا، بلوچستان اور بھارت – ایکسپریس اردو

امریکا پاکستان سے کب تیل نکالے گا اور کب اسے بھارت کو برآمد کیا جائے گا، اس کے لیے وقت درکار ہے لیکن اس خبر میں نئے دور کی نوید ضرور موجود ہے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ بہر صورت کاروباری شخصیت ہیں اور ان کی سیاست کے تمام سوتے یہیں سے پھوٹتے ہیں۔ دنیا کے اس طاقت ور ترین شخص کی طرف سے آنے والی خبر کو ان کی شخصیت کے تناظر میں دیکھنا چاہئے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے جیسے پاک بھارت جنگ بند کرائی بالکل اسی طرح وہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کا خاتمہ بھی چاہتے ہیں۔ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی ختم ہوتی ہے یا اس میں کمی آتی ہے تو اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا ناگزیر مطلب یہ ہے کہ اس خطے سے ان کیفیات کا خاتمہ ہو جائے گا جن کی وجہ سے پاکستان داخلی سطح پر بے چین ہے۔

اللہ تعالی نے پاکستان کو تیل اور گیس کے خزانوں سے مالا مال کر رکھا ہے لیکن بدقسمتی ہمیشہ اس کی جان کا آزار بنی رہتی ہے۔ آئل اینڈ گیس ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے ایک سابق ذمے دار بتایا کرتے ہیں کہ بلوچستان اور بعض دیگر مقامات سے تیل اور گیس اس لیے نہیں نکل پاتا کہ مقامی سطح پر طاقت ور لوگ اس میں روڑے اٹکاتے ہیں جس میں بعض بیرونی طاقتیں بھی کردار ادا کرتی ہیں۔ صدر ٹرمپ نے معدنی وسائل بالخصوص تیل اور گیس کو ڈھونڈ نکالنے کا جو تصور پیش کیا ہے، اس کے اثرات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے وہ علاقے جہاں یہ معدنی وسائل پائے جاتے ہیں، ان دنوں بد  امنی کا شکار ہیں جب تک یہاں بد امنی رہے گی، نہ کوئی بیرونی سرمایہ کار یہاں آ سکتا ہے اور نہ تیل نکالا جا سکتا ہے۔ اگر ان غیر معمولی وسائل سے فایدہ اٹھانے کا سوچا جا رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس خطے میں مزید بد امنی کی گنجائش نہیں اور اس کے خاتمے کے دن قریب ہیں۔ اسی طرح اگر پاکستان سے نکالا ہوا تیل بھارت کو فروخت کرنے کی بات کی جا رہی ہے تو  بعض لوگ سمجھ رہے ہیں کہ یہ ڈونلڈ ٹرمپ کا طنز ہے ۔ یہ بات قرین حقیقت نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خطے میں اب وہ معاندانہ ماحول نہیں رہے گا جو نریندر مودی نے پیدا کر رکھا ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ مودی کا چپیٹر کلوز ہو چکا، اب اس کی راکھ سے ایک نیا بھارت جنم لے گا جس کے پڑوسی ملکوں کے ساتھ معمول کے تعلقات ہوں گے۔

بھارت میں جس طرح مودی کا زوال شروع ہو چکا، اسی طرح پاکستان میں بھی تبدیلی کے آثار ہیں۔ بلوچستان کے پیچیدہ مسئلے میں جماعت اسلامی بھی متحرک ہو گئی ہے اور گوادر کے مولانا ہدایت الرحمان کی قیادت میں ایک کارواں کسی نہ کسی صورت اسلام آباد پہنچا ہے۔ یہ مسئلہ بہت سنگین ہو چکا ہے۔ خود بلوچستان کے اپنے مسائل کے تعلق سے بھی اور غیر بلوچ پاکستانیوں یعنی اہل پنجاب پر جو بیت رہی ہے، اس کے تعلق سے بھی۔

دیکھا یہی گیا ہے کہ علاقائی مسائل کو اپنے ہاتھ میں لے کر قومیت کی بنیاد پر جو تحریکیں اٹھتی ہیں وہ بہت جلد انتہا پسندی اور تشدد کا راستہ اختیار کر لیتی ہیں۔ ماہ رنگ بلوچ والی بلوچ یک جہتی کمیٹی کا تجربہ یہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب بلوچستان میں دہشت گردی عروج پر تھی، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ان کی یک جہتی کمیٹی وجود میں آئی۔ اس کا دعوی یہی تھا کہ وہ عسکریت کو پچھاڑ کر خالصتا سیاسی راستہ اختیار کرے گی پھر اس تنظیم نے جلسے جلوس کیے۔ اس کی کم و بیش تمام سرگرمیاں ہی پر تشدد رہیں۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ہونے والے ان کے تمام اجتماعات کے موقع پر گڑ بڑ ہوئی۔ ان خبروں کی تو کوئی تردید نہیں ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ان سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈالی لیکن یہ کم ڈسکس ہوا ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا؟ اب یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ڈاکٹر ماہ رنگ کے ارد گرد وہی لوگ تھے جو ہتھیار اٹھا کر پہاڑوں پر جاتے تھے یا جن کے ہاتھ پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزدوروں یا زائرین کے خون سے رنگے ہوئے تھے۔ جس کے دستاویزی ثبوت بھی اب سامنے آنے لگے ہیں۔

بلوچستان کے مسائل کی ایک وجہ تو مقامی ہے۔ مقامی سطح پر ہر معاشرے میں اختلاف اور مسائل ہوتے ہیں جن کے حل کے لیے مقامی تحریکیں پیدا ہوتی ہیں لیکن بلوچستان کی صورت حال مختلف ہے۔ بلوچستان پورے آئینی اور قانونی طریقے سے پاکستان کا حصہ بنا لیکن اس موقع پر کچھ عناصر ایسے تھے جو ایسا نہیں چاہتے تھے۔ ان لوگوں نے اسی زمانے سے پاکستان سے باہر امیدیں وابستہ کر لیں۔ خواہ وہ قلات کی ریاست کے انظمام کے موقع پر افغانستان سے امیدیں وابستہ کر لینے والے ہوں یا بھارت سے۔ بالکل اسی طرح گوادر کے پاکستان کے ساتھ انظمام کے موقع پر بھی بھارت کا منفی طرز عمل سامنے آتا ہے۔ وزیر اعظم فیروز خان نون نے گوادر کو پاکستان کا حصہ بنایا ہی اس لیے تھا کہ بھارت کے زیر سایہ اس راستے سے پاکستان کی معیشت کو نچوڑنے کا ایک نظام کام کر رہا تھا جس کی وجہ سے پاکستان کا دفاع بھی خطرات سے دوچار ہو چکا تھا۔ ان فیصلہ کن مراحل پر بھارت نے جن لوگوں کو اپنا آلہ کار بنایا، وہ لوگ اب بھی اپنے مقاصد کی خاطر اسی راستے پر چل رہے ہیں۔ بلوچستان میں اس وقت ہم جس مسئلے کا سامنا کر رہے پیں، اس کا ایک تاریخی پس منظر یہ ہے۔

پاکستان نے گوادر کو عالمی تجارت کی راہ داری بنانے کا فیصلہ کیا تو اس کے بعد اس مسئلے میں کچھ نئی پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔ یہ پیچیدگیاں کیا ہیں، انھیں سمجھنے کے لیے ایک مثال سے مدد لی جا سکتی ہے اور وہ مثال ہے کراچی کی تباہی۔ کراچی کے مسئلے پر غور کرتے ہوئے یہ ضرور دیکھنا چاہئے کہ جب خطے کے ایک بڑے کاروباری مرکز کی حیثیت سے کراچی ویران ہو رہا تھا، اس وقت خطے میں کون سے نئے مراکز وجود میں آ رہے تھے؟ اب گوادر تجارت کا عالمی مرکز بن رہا ہے تو وہی مراکز اب پریشان ہیں جو کراچی کی تباہی کا سبب بنے تھے۔ یہ مراکز صرف پریشان نہیں ہیں بلکہ بلوچستان میں موجودہ صورت حال پیدا کرنے میں ان کا برابر کا حصہ بھی ہے۔

ہمارے مسائل کے ضمن میں یہ عنصر اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے لیکن اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے والے ایک اور بڑے عنصر کو سمجھنا ضروری ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ عنصر بھارت کی صورت میں متحرک ہے جس کے بہت سے دستاویزی ثبوت تو ہمارے ہاتھ میں ہیں ہی، کچھ عرصہ قبل کلبھوشن یادیو کی صورت میں ایک اہم جاسوس بھی ہماری گرفت میں آ چکا ہے جس کے اعترافات چشم کشا ہیں۔

بلوچستان کو غیر مستحکم کرنے والے یہ دونوں غیر ملکی عناصر  بڑی کوشش کے ساتھ داخلی عنصر کے ساتھ اشتراک عمل پیدا کرنے میں کام یاب رہے ہیں۔ ان تین عوامل کے اشتراک سے وجود میں آنے والے اس گروہ کو ہی ہم فتنہ الہندوستان کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

وطن عزیز کے اس اہم ترین خطے یعنی بلوچستان میں حالیہ بد امنی کے پس پشت یہی عوامل متحرک ہیں۔ اس ضمن میں ہماری ناکامی یہ ہے کہ صوبے کے وہ قوم پرست جو پاکستان کی سالمیت اور وحدت پر یقین رکھتے ہیں، ان کے ساتھ ہم کوئی مثر میثاق بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اگر ایسا میثاق کبھی وجود میں آیا بھی تو اسے برقرار نہ رکھا جا سکا جس کے نتیجے میں صوبے میں انتشار پیدا کرنے والی قوتوں پر قابو پانا بھی ممکن نہ رہا اور عوام کی بے چینی کا سدباب نہ کیا جا سکا۔

اس ضمن میں میاں نواز شریف کی گزشتہ حکومت کی حکمت عملی مناسب تھی جس کے تحت مالک بلوچ کی قیادت میں بلوچستان میں نہ صرف ترقی کا پہیہ چلنا شروع ہوا بلکہ انتشار پسند قوتیں بھی غیر مثر ہوتی چلی گئیں۔ اس تجربے کو ناکام بنا دیا گیا جس کے بعد خون ریزی بھی بڑھی اور ماہ رنگ بلوچ جیسی شخصیات بھی ابھر کر سامنے آئیں جو دہشت گردوں کی پشت پر جا کھڑی ہوئیں۔

دکھ کی بات یہ ہے کہ اس نازک مرحلے پر صوبے سے تعلق رکھنے والے وہ قوم پرست متحرک نہیں ہیں جو پاکستان پر یقین رکھتے ہیں۔ اسی طرح قومی سیاسی جماعتیں بھی اس قضیے میں غیر مثر دکھائی دیتی ہیں۔ اس پس منظر میں جماعت اسلامی کا منظر پر آنا ایک خوش گوار پیش رفت ہے۔ خون ریزی کرنے والے دہشت گردوں اور ماہ رنگ کے غیر دانش مندانہ طرز عمل نے اہل پنجاب کی رگ رگ میں دکھ بھر دیا تھا جس کی وجہ سے یہاں بلوچستان کے جائز مسائل پر بات کرنا مشکل ہو رہا تھا کیوں کہ دہشت گردوں کی وجہ سے عوام میں اس سلسلے میں لاتعلقی کا رویہ پیدا ہو رہا تھا۔

جماعت اسلامی کا تحرک رشتوں میں پیدا ہو جانے والی اس تلخی کا خاتمہ کر کے صحت مند مکالمے کو پھر سے شروع کر سکتا ہے کیوں کہ پنجاب میں ماہ رنگ جیسے لوگوں کا خیر مقدم کرنے والے لوگ اب کم ہی رہ گئے ہیں لیکن جماعت اسلامی کا مسئلہ یہ نہیں ہے۔ پاکستان کی سالمیت اور استحکام پر یقین رکھنے والے جماعت اسلامی کے کارکنوں نے مولانا ہدایت الرحمان کا خیر مقدم کیا۔ یہ حوصلہ افزا بات ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بلوچستان میں حالات بدل رہے ہیں۔ دیگر قومی جماعتوں کو بھی بالکل جماعت اسلامی کی طرح بلوچستان کا معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لینا چاہیے۔

اپنا تبصرہ لکھیں