مغربی مشینری ہمیشہ سے مسلمان ممالک میں دخل اندازی اور فوجی مداخلت کے ذریعے حکومت اور نظاموں کو تبدیل کرتی آئی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی حکومت نے دخل اندازی اور فوجی مداخلت کو اپنا بہترین ہتھیار قرار دے کر جہاں مسلمان ممالک کو کمزور اور محکوم کرنے کی کوشش کی ہے وہاں ساتھ ساتھ افریقی اور لاطینی امریکا کے ممالک بھی اس کا شکار رہے ہیں۔
مسلمان ممالک کی بات کی جائے تو پاکستان، ایران، عراق، افغانستان، لیبیا، یمن، شام اور دیگر کئی ممالک ہے جن کو امریکی حکومت نے دباؤ اور مختلف ہتھکنڈوں کا نشانہ بنایا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کئی ایک مسلمان ممالک مغربی ہتھکنڈوں کے سامنے ڈھیر ہوئے ہیں۔ البتہ ان ممالک میں چند ایک ایسے ممالک بھی ہیں، جنھوں نے مزاحمت کا راستہ جاری رکھا ہوا ہے اور امریکا کے سامنے کسی بھی صورت میں سرتسلیم خم نہیں کیا ہے۔ ایسے ہی ممالک میں ایران سر فہرست ہے جو مسلم دنیا کا ایک اہم ترین ملک ہے۔
اسی طرح غیر مسلم دنیا میں ہمیں وینزویلا اورکچھ اور ممالک بھی نظر آتے ہیں۔آئیے! اب ایران کی بات کرتے ہیں کہ کس طرح ایران کو امریکی سازشوں کا سامنا ہے اورکس طرح ایران ان سازشوں کا مقابلہ کرتا ہے۔ امریکی حکومت اور اسرائیل نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ کوئی نہ کوئی اعتراضی نقطہ تلاش کیا جائے اور ایران کو اندرون خانہ ایک ایسی صورتحال میں مبتلا کردیا جائے جس کی بدولت ایران کا اسلامی نظام کمزور ہوجائے یا یہ ختم ہوجائے اور اس کی جگہ امریکا اور اسرائیل کا من پسند ہائبرڈ اسلامی نظام نافذ کردیا جائے اور پھر امریکی من مانی اور بالادستی جاری رہے جوکہ 1979 میں امام خمینی کی قیادت میں ایرانی قوم نے نیست و نابود کرکے رکھ دی تھی۔
امریکا اور اسرائیل نے چار ماہ قبل ہی ایک بڑی پرجوش اور بھرپور طاقت کے ساتھ ایران پر حملہ کیا تھا اور اس حملے میں کئی ایک اہم شخصیات کو قتل کردیا گیا تھا۔ اس خونی اور وحشی حملے کا بنیادی مقصد وہی تھا جو ہمیشہ سے امریکا اور اسرائیل کی کوشش رہی کہ ایران سے اسلامی نظام کا خاتمہ کیا جائے لیکن ان کی ساری خواہشات دم توڑگئیں اور ایران کی بہترین مزاحمت کے سامنے امریکا اور اسرائیل کو بڑی ذلت آمیز شکست کا سامنا ہوا۔ یاد رکھیے امریکی اور اسرائیلی مشینری جوکہ ایرا ن میں موساد اور سی آئی اے کے ایجنٹوں کے طور پرکام کرتی ہے پہلے ہی کئی مرتبہ ایران کے خلاف کئی ایک اقدامات کر چکی ہے۔
ان اقدامات میں دہشت گردانہ کارروائیاں شامل ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے جیسے مسائل بھی سرفہرست ہیں۔ گزشتہ سال ہی کی بات ہے کہ ایک ایرانی خاتون مہسا امینی کے واقعے کو امریکی اور اسرائیلی ایجنٹوں نے الگ تھلگ رخ دے کرکئی ماہ تک ایران کے نظام پر سوال اٹھائے اور پوری طاقت کے ساتھ یہ کوشش کی تھی کہ ایران کے نظام کو گرا دیں۔ اس کام کے لیے مغربی دنیا کا میڈیا مکمل طور پر ایران کے خلاف مہم جوئی میں مصروف عمل تھا۔ ایران کے اندرونی عوامل میں سیاسی اختلافات رکھنے والے رہنما بھی اس سے استفادہ کر رہے تھے اور حکومت کو گرانے کی مکمل کوشش کر رہے تھے۔
غرض یہ کہ براہ راست امریکا اور اسرائیل بھی اس مسئلے پر میڈیا پر مہم جوئی میں پیش پیش تھے لیکن چند ماہ بعد یہ مسئلہ بھی ایرانی قوم کی وحدت اور ایران کی با بصیرت قیادت کے اقدامات کے باعث دم توڑ گیا اور دشمنوں کو مایوسی کا سامنا ہوا۔حال ہی میں ایک مرتبہ پھر ایسے حالات میں کہ جب ایک طرف اسرائیل انتہائی مایوس کن صورتحال سے گزر رہا ہے اور ایران میں نظام کی تبدیلی کے خواب چکنا چور ہوتے دیکھ چکا ہے اور امریکی حکومت اور ٹرمپ بھی شدید مضطرب ہیں کہ بارہ روزہ جنگ میں بھی ایران کو نقصان نہیں پہنچا پائے اور ساری کوششیں ناکام ہو گئی ہیں تو ایسے حالات میں اب ایران کے ایک سینئر عہدیدار علی شمخانی کہ جن کو جنگ کے دوران بھی امریکا اور اسرائیل نے نشانہ بنایا تھا لیکن وہ زخمی ہونے کے بعد صحت یاب ہوگئے ہیں، ان کے خلاف ایک غیر اخلاقی منصوبے کو سامنے لائے ہیں۔
اس مرتبہ امریکا اور اسرائیلی کے مقامی ایرانی ایجنٹوں نے امریکا اور اسرائیل کو خوش کرنے اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ایران میں علی شمخانی کی بیٹی کی شادی کی وڈیوکو منظر عام پر لائے ہیں اور اس وڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد جس انداز سے عالمی اور علاقائی میڈیا نے شور برپا کیا ہے، یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ دشمن تمام میدانوں میں شکست کھانے کے بعد اب گری ہوئی حرکتوں پر اتر آیا ہے اور ایک مرتبہ پھر ایران کے نظام پر حملہ کرنے کی کوشش کر رہاہے لیکن اس مرتبہ بھی دشمن کو مایوسی اور شکست کے سوا کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔علی شمخانی کی بیٹی کی وڈیو کے منظر عام پر آنے کے اس واقعے نے دو الگ نوعیت کے سوالات کو جنم دیا ہے۔
ایک سوال تو یہ ہے کہ ایران کی حکومت کی پالیسیاں دوغلی ہیں اور اس سوال کو مغربی ذرایع ابلاغ بھرپور انداز میں پھیلانے میں مصروف ہیں جب کہ دوسراسوال یہ ہے اخلاقی اصولوں اور نجی زندگی کی حرمت سے متعلق ہے جس سے مغرب کوکوئی پرواہ نہیں ہے،کیونکہ مغربی دنیا کی حکومتیں اخلاقی اقدار سے کوسوں دور ہیں اور چاہتی ہیں کہ دنیا کے معاشروں کو غیر اخلاقی معاشروں میں تبدیل کریں۔مغربی ذرایع ابلاغ کے ساتھ ساتھ ایران مخالف قوتیں بھی سرگرم ہیں اور ہرکوئی اس واقعے پر اپنے اپنے حساب سے تیراندازی کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرنے کی دوڑ میں شامل ہو چکا ہے، یعنی مغربی ذرایع ابلاغ کی جانب سے سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ ایران میں ریاستی سطح پر اور عوامی سطح پر کوئی تضاد موجود ہے، اس سوال کے ذریعے وہ ایران میں ایک مرتبہ پھر انارکی پھیلانا چاہتے ہیں۔ یہ کام اس لیے انجام دے رہے ہیں کیونکہ بارہ روزہ جنگ کے بعد ایرانی قوم پہلے سے زیادہ متحد اور طاقتور نظر آ رہی ہے۔
امریکا اور اسرائیل ایران کی اس وحدت اور محبت کو پارہ پارہ کرنا چاہتے ہیں۔آئیں! اب ذرا ایران میں ہونے والی اس طرح کی نجی تقاریب سے متعلق کچھ بات کرتے ہیں۔ چاہے ریاستی سطح کے لوگ ہوں یا عمومی سطح کے لوگ ہیں، ایرانی قوم کی ثقافت اور طور طریقوں میں شادی بیاہ کی تقریبات میں ہمیشہ خواتین کے لیے مخصوص اجتماع منعقد ہوتے ہیں اور وہاں پر کسی بھی مرد کی موجودگی نہیں ہوتی ہے، یعنی خواتین علیحدہ اور مرد علیحدہ ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وڈیو ایک خواتین کی نجی تقریب جس میں صرف اور صرف خواتین تھیں اورکوئی بھی نامحرم اور مرد موجود نہیں تھا، اس تقریب کی وڈیو لیک ہوئی ہے۔ تو یہاں اصل جرم وڈیو میں خاتون کا پہنا ہوا لباس نہیں بلکہ نجی محفل کی خلافِ اجازت فلم بندی کرنا اور لیک کرنا ہے۔
یقینا ایران کے سینئر عہدیدار علی شمخانی کی بیٹی کی شادی کی نجی محفل اور اس کی وڈیو اس لیے لیک کی گئی ہے، تاکہ ایران میں سیاسی مخالفین بھی اس سے فائدہ حاصل کریں اور ساتھ ساتھ امریکا اور اسرائیل کے منصوبوں کو بھی سہارا دیا جائے۔یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ دنیا کے ہر مذہبی معاشرے میں، خواہ کسی مذہب یا فرقے یا کسی ملک سے تعلق رکھتے ہوں، خواتین اپنے دائرے میں آزادانہ لباس پہنتی ہیں،کیونکہ وہاں غیر محرم مرد موجود نہیں ہوتے، لہٰذا کسی ایسی محفل کی وڈیوکو عوامی بنا کر دوغلی پالیسی کا ثبوت کہنا انصاف نہیں بلکہ اخلاقی انحطاط ہے۔
ایرانی خواتین، حتیٰ کہ سخت مذہبی گھرانوں میں بھی، نجی شادیوں یا گھریلو تقریبات میں مغربی طرز کے لباس پہنتی ہیں۔ یہ کوئی نیا رجحان نہیں بلکہ ایرانی شہری ثقافت کا تسلسل ہے جو مذہبی حدود کے ساتھ ساتھ گھریلو نجی دائرے میں وجود رکھتا ہے۔اس واقعے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ یہ وڈیو تقریباً ایک سال پرانی ( اپریل 2024) کی ہے، مگر اب منظر عام پر آئی ہے۔
