ایک انوکھی کہانی – ایکسپریس اردو

آئی ایم ایف کے تازہ ترین جائزے میں یہ چشم کشا حقیقت سامنے آئی کہ تعلیم اور صحت کے لیے مختص وسائل مکمل طور پر استعمال نہیں کیے جا سکے حالانکہ تعلیم اور صحت ہر سیاسی پارٹی اور حکومتوں کی زبانی ترجیحات میں بظاہر نمبر ون پر ہوتے ہیں۔

جہاں یہ وسائل استعمال ہو رہے ہیں، وہاں یہ صورتحال ہے کہ عوام ناخوش اور حکومت مصر ہے کہ صحت کی سہولتوں میں انقلاب برپا ہو چکا ہے۔ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ دیگر صوبوں میں بھی عمومی صورتحال زیادہ مختلف نہیں۔

پاکستان میں صحت کا شعبہ طویل عرصے سے حکومتی ترجیحات کے دعوؤں میں آگے لیکن عملاً لڑکھڑا رہا ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی کل جی ڈی پی کا صرف 1.2 فیصد صحت کے سرکاری شعبے میں خرچ ہوتا ہے۔ایک اور سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں فی کس سالانہ میڈیکل اخراجات 45 ڈالر سے بھی کم ہیں، جو جنوبی ایشیا میں سب سے کم شمار ہوتے ہیں۔

پاکستان میں ہر 1300 افراد کے لیے صرف ایک ڈاکٹر اور 1800 افراد کے لیے ایک بستر دستیاب ہے۔ اس صورتحال کا سب سے بڑا حادثہ بچوں کو سہنا پڑتا ہے جس کا نتیجہ ہے کہ یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر 11 میں سے ایک بچہ پانچ سال کی عمر سے پہلے وفات پا جاتا ہے۔ہمارے ہاں غربت اور بیماری ایک ایسا گھن چکر ہے جس سے نکلنا غریب عوام کے لیے ممکن نہیں۔

پاکستان میں تقریباً 40 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے جن کے لیے بیماریاں اس غربت کی دلدل کو مزید گھمبیر بنا دیتی ہیں۔ایک حالیہ سروے کے مطابق 70 فیصد مریض علاج کا خرچ خود ادا کرتے ہیں، یعنی کوئی انشورنس، کوئی سوشل سیکیورٹی کا نظام نہیں۔

بیماری کی صورت میں ایک عام گھرانہ اپنی سالانہ آمدنی کا 30 سے 50 فیصد صرف صحت پر خرچ کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ایسے میں نجی شعبے میں صحت کے اعلیٰ معیار اور بلاتخصیص علاج تک رسائی کی چند روشن مثالیں قابل قدر اور قابل ستائش ہیں۔ دو روز قبل لاہور کے جوبلی ٹاؤن میں انڈس اسپتال کے 600 بستروں پر مشتمل کیمپس کا تفصیلی مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔

گزشتہ سال ہمیں انڈس اسپتال کراچی وزٹ کرنے اور ان کے سسٹم کا تفصیلی مطالعہ کرنے کا موقع ملا جو بجائے خود ایک انوکھا تجربہ تھا۔ انڈس اسپتال جوبلی ٹاؤن کو اسی تجربے کا شاندار تسلسل پایا۔ یہ روایتی اسپتال نہیں، بلکہ طبّی سہولت، انسانی ہمدردی اور انتظامی سلیقے کی ایک انوکھی مثال ہے۔

شاندار اور وسیع عمارت جے سی آئی کے عالمی معیارات پر سنگاپور کی ایک معروف فرم کے ڈیزائن کے مطابق تعمیر شدہ ہے ( واضح رہے کہ پاکستان کے صرف تین اسپتال جے سی آئی سرٹیفائیڈ ہیں)۔ تربیت یافتہ، منظم اور خوش اخلاق عملہ، تمام شعبوں کی مربوط کارکردگی اور سب سے بڑھ کر علاج کی مکمل بلامعاوضہ فراہمی کے مشن پر مکمل عملدرآمد۔ پورے اسپتال میں کہیں بھی کیش کاؤنٹر نہیں ہے۔

یہ سب کیسے ممکن ہو پا رہا ہے؟ چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر شفیق حیدر سے تفصیلی ملاقات اور ان کی ٹیم کے ہمراہ اسپتال کے تفصیلی ملاحظے سے ادارے کے بانی ڈاکٹر عبد الباری کے ’’مفت علاج سب کے لیے‘‘ کے خواب کی تعبیر سے مزید آگاہی ہوئی۔ انھوں نے انڈس ہیلتھ کئیر نیٹ ورک کے ارتقائی سفر، نظریاتی بنیاد، انڈس ہیلتھ نیت ورک کی موجودہ سہولیات، اداروں اور جوبلی ٹاؤن کیمپس کے موجودہ اور مستقبل کے ماسٹر پلان سے آگاہ کیا۔

انڈس نیٹ ورک کا سفر 2007میں کراچی کے ایک چھوٹے سے اسپتال سے شروع ہوا، آج یہ نیٹ ورک ملک بھر میں بیسیوں اسپتالوں، کلینکس اور طبی مراکز پر مشتمل ہے، جہاں سالانہ ساٹھ لاکھ سے زائد مریضوں کا علاج بلاامتیاز کیا جاتا ہے۔ سندھ، پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان… ہر صوبے میں انڈس کی موجودگی، پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ ماڈل کے تحت کامیابی سے جاری ہے۔

یہ نیٹ ورک نہ صرف علاج، بلکہ طبّی تعلیم، تحقیق، نرسنگ اور پیرامیڈیکل ٹریننگ کے میدان میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ مخیر حضرات کی امداد کو انتہائی شفافیت کے ساتھ مریضوں کی خدمت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہی اعتماد اور شفافیت اس نیٹ ورک کی کامیابی کی کلید ہے۔

یہ صرف ایک ادارہ جاتی کامیابی نہیں، بلکہ یہ ایک اجتماعی فخریہ مثال ہے۔ ایسے وقت میں جب مہنگے اسپتالوں کے بل انسانوں کو مقروض اور مایوس بنا رہے ہیں، انڈس جیسا ادارہ ایک روشن راہ دکھا رہا ہے۔یہ اسپتال اس سوچ کا اظہار کہ اگر نیت خالص ہو، نظام شفاف ہو اور عوام کا اعتماد حاصل ہو، تو دنیا کا کوئی خواب ناممکن نہیں۔ ہمیں بطور قوم ایسے اداروں سے سیکھنا چاہیے۔ مخیر طبقے کو مزید منظم انداز میں انڈس اور ایسے مزید اداروں کی سرپرستی کرنی چاہیے۔

کبھی سوچا تھا کہ ایک اسپتال بغیر فیس کے، بغیر نسلی یا مالی امتیاز کے، عالمی معیار کی سہولت دے سکتا ہے؟ انڈس اسپتال نیٹ ورک نے ثابت کیا کہ خواب، اگر بصیرت اور عزم کے ساتھ دیکھے جائیں، تو وہ تعبیر پا سکتے ہیں۔ ہماری دعائیں، تحسین اور تعاون انڈس جیسے اداروں کے لیے ہیں… جو ہمیں سکھاتے ہیں کہ انسانیت کا سب سے قیمتی علاج محبت، خلوص اور خدمت ہے۔

مہنگائی اور زندگی کے تقاضوں نے عام آدمی کی زندگی مشکل بنا دی ہے بلکہ یہ مشکل ہر گزرتے دن مشکل تر ہو رہی ہے۔ تعلیم اور صحت ہر ایک کی بنیادی ضرورت ہے۔ ماں باپ کی اپنی زندگی جیسے بھی گزر جائے ان کی شدید خواہش اور خواب یہی ہوتا ہے کہ ان کی اولاد تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو تاکہ بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہو سکے۔

عوام کی یہ بھی ایک بنیادی ضرورت ہے کہ غربت کے مارے ہوئے اور مسائل کی چکی میں پسنے کے باوجود انھیں صحت کی اس قدر بنیادی سہولتیں ضرور میسر ہوں کہ سانس کا ناتا برقرار رہے۔ سرکاری شعبے میں انتظامی مداخلت اور مالی وسائل کی مجبوریاں اپنی جگہ لیکن بڑھتی ہوئی آبادی کا مسلسل دباؤ سرکاری صحت کے انفرااسٹرکچر کو مسلسل زیربار کیے ہوئے ہے۔

کمرشل بنیادوں پر استوار نجی شعبے کی صحت سہولیات عام آدمی کی پہنچ سے دور ہیں۔ ایسے میں انڈس اسپتال نیٹ ورک اور ایسے دیگر ادارے خدمت کی روشن مثال قائم کر رہے ہیں۔ انھیں تعاون کی ضرورت ہے اور ان کے لیے راستے آسان کرنے کی ضرورت ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں