’’آئیں! میں آپ کو ڈراپ کر دوں۔‘‘
’’ارے ہاں، آپ نے تو ایک بار میرے شوہر بھی جب آئے ہوئے تھے تو ہمیں گھر ڈراپ کیا تھا۔‘‘ انداز میں کچھ ہچکچاہٹ۔
’’ میں بھی تو اسی طرف رہتا ہوں۔‘‘ انھوں نے مزید اپنے گھر کا پتا یاد دلایا۔
’’ہاں! آپ بھی تو اس طرف ہی رہتے ہیں، تھوڑا سا آگے ہی تو میرا گھر ہے۔‘‘
’’ لیکن میں نے بچے سے رائڈ بک کروا لی۔‘‘
انھوں نے کچھ فاصلے پر بیٹھے کسی بچے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا جو اپنے سیل فون پر جتا ہوا تھا۔
’’ہاں تو کیا ہوا، رائیڈ کینسل کروا دیں۔‘‘ گاڑی کی چابی سے کان کھجاتے۔۔۔ صاحبہ کچھ خجالت سے بچے کے پاس آئیں جو ان کی سہیلی کے ساتھ آیا تھا۔
’’ہاں بیٹا! کیا ہوا رائیڈ بک ہوئی؟‘‘
’’جی بس ہو رہی ہے یہ دیکھیں۔۔۔ وہ قریب ہی ہے۔‘‘ بچے نے سیل فون سامنے کیا، ایک اطمینان بھری سانس بھرتے وہ پلٹیں۔
’’سوری وہ رائیڈ بس آنے والی ہے۔ آپ کا بہت شکریہ۔‘‘
’’چلیں کوئی بات نہیں میں پھر چلتا ہوں۔‘‘
پھیکی سی مسکراہٹ سے وہ دھیمی چال سے چلتے چلے گئے۔
وہ ساٹھ سال سے زائد عمر کے اپنے سے کئی برس چھوٹی خاتون سے رات کے گیارہ بجے ایک فنکشن کے بعد اپنی گاڑی میں ڈراپ کرنے پر مصر تھے جب کہ خاتون انکاری تھیں۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ دونوں انجان تھے لیکن کئی اشارے، اظہار اور جذبات ان کہی کہہ جاتے ہیں اور سمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ عورت میں رب العزت نے ایک ایسا سگنل نصب کیا ہے جو صنف مخالف کے غلط رویے پر سرخ ہونا شروع ہو جاتا ہے یہ گھنٹی اس قدر تیز بجتی ہے کہ عورت پوری طرح الرٹ ہو جاتی ہے اور جو ان سگنلز پر توجہ دینا انھیں پہچاننا نہیں جانتی نقصان اٹھاتی ہے۔
آئے دن اخبارات میں ایسے واقعات و حادثات کی کہانیاں پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں جن میں خواتین کے ساتھ ہراسانی، زیادتی اور تشدد کے واقعات نمایاں ہوتے ہیں۔ ترقی کے اس ماحول میں جہاں انسان آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے، وہیں ذہنی سوچ اور تنگ نظری عجیب فریب کا ساماں پیدا کر رہی ہے۔ والدین اپنی بچیوں اور بچوں کی تربیت میں جس رجحان کو فروغ دے رہے ہیں وہیں بے حیائی اور بے ہودگی جن بن کر سامنے کچھ اس طرح سے آ رہے ہیں جس نے معاشرے کی ہیئت تبدیل کرنے کا مشن اٹھا رکھا ہے۔ سوشل میڈیا کا ناجائز استعمال مسائل میں اضافہ کر رہا ہے۔ ہر کوئی اپنا موبائل اپنا کیمرہ اپنی تصاویر اور وڈیوز میں اپنے ہر طرح کے جذبات کو بے دریغ بہائے جا رہا ہے۔
کیا اچھا، کیا برا سب بہے جا رہے ہیں لیکن انسانی قدروں کی پامالی جس انداز میں ہو رہی ہے وہ ہماری مشرقی اقدار کے لیے خطرہ بن گئی ہیں جسے روکنا ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔وہ خاتون بینک میں نوکری کرتی تھی،گاڑیاں لیز پر دینا اس کی ڈیوٹی تھی جسے نبھاتے اور آگے بڑھنے کی جستجو نے اسے بے خوف کر دیا تھا، کسی نے شام کو کسی مقام پر بلایا اور وہ چلی گئی، یہ جانے بغیر کہ وہاں کیا کچھ اس کا انتظار کر رہا ہے اور وہی ہوا جیسا کہ بڑے بوڑھے سمجھاتے تھے کہ اندھیرا پھیلنے سے پہلے اپنے گھر کی راہ لو، پر پرانی باتیں پرانی ہوگئیں، اب ان کم عقلوں کو ترقی یافتہ دورکا کیا پتا؟ ہر انسان سوچ کی تنگ نظری، اپنے کام سے ازحد وفادار مقررہ مقام پر پہنچ گئی، اسے کوئی مشروب دیا گیا جو پی لیا گیا، پھر وہی بڑے بوڑھوں کی پرانی باتیں، ہر کسی کا دیا نہیں کھاتے پیتے جب کہ مقام بھی اجنبی اور ماحول بھی اجنبی، پر پرانی روایات کے امین، آج کل کے بارے میں کیا جانیں، یہ تو بزنس ڈیلنگ تھی پر صنف کا فرق حاوی تھا جو پہلے ہی طے شدہ تھا۔ بزنس کیا ملنا تھا عزت خاک میں مل گئی۔ پھر پولیس اور مجرموں کی بھاگ دوڑ میں خواریاں اور تماشے۔
ہم پرانی روایات اور اپنے بزرگوں کی باتیں فراموش کرتے آگے بڑھ رہے ہیں، مذہبی اعتبار سے ویسے ہی کمزور تو اس بارے میں کیا ہی کہیں، لیکن کیا نئی روش ہمیں صنف مخالف کے فرق کو ختم کرنے کے مشورے دیتی ہے، تو کیا واقعی وہ فرق ختم ہوگیا ہے، یا ہم اتنے ماڈرن ہو گئے ہیں کہ حیوانیت کے اس بازار میں سب بیچنے کو تیار کھڑے ہیں۔ کیا واقعی یہی ہماری قوم کا نصیب ہے، بے حیائی، بے وفائی، بزدلی اور تماشے۔’’ کبھی بھی کسی کے سامنے اپنے شوق کا اظہار نہ کرو کہ تمہیں اس چیز کا بڑا شوق ہے، ورنہ وہ تمہارے شوق کا ناجائز فائدہ اٹھائے گا اور آدمی تو اس معاملے میں بڑے چالاک ہوتے ہیں، وہ لڑکیوں کو بچیوں کو اپنے جال میں پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘ریڈیو پاکستان، کراچی کی پروڈیوسر مرحومہ بشریٰ نور خواجہ کی کہی بات بھولتی نہیں جو بزم طلبا کے لڑکے لڑکیوں میں اپنی مشرقی اقدار میں بسے باتوں کے خوبصورت پھول بکھیرتی رہتی تھیں، اب ایسے شاید ہی لوگ ہوں جو اپنی نوجوان نسل میں ایسی خوبیاں دیکھنا چاہتی تھیں، جو انھیں ہمارے اسلامی شعائر سے بھی قریب کریں۔ ہائے وہ پیارے سے لوگ۔
’’پس تم (عورتیں) نرمی سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں بیماری ہو وہ کوئی لالچ کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق بات کرو۔‘‘ (سورۃ احزاب۔ 33-32)
یہ آیت تمام مسلمان خواتین کے لیے کھلا پیغام ہے کہ کسی غیر مرد سے نرم لہجے میں دل لبھانے کے انداز میں بلاوجہ مسکرا کر بات نہ کی جائے تاکہ کوئی فتنے میں نہ پڑے۔ ہمارے مذہب میں جس بات کو فتنہ کہا گیا ہے ہمارے ملک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، اس فتنے نے کیا کیا کھیل نہیں کھیلے، اوپر سے لے کر نیچے تک اس فتنے نے بدنما داغ ثبت کر رکھے ہیں کہ تحریر کرتے کئی چہرے ابھر اور ڈوب رہے ہیں۔
بہرحال جو بات ہمارے رب العزت نے اپنے کلام میں تحریر کردی وہ سب کے لیے ایک سبق ہے جسے رٹ کر عمل کرکے اپنے آپ کو پکا کر لینے میں ہمارا ہی فائدہ ہے۔ کون کہتا ہے کہ ترقی کی راہ میں آگے نہ بڑھو۔ لڑکیاں، خواتین آج ہر فیلڈ میں مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کر رہی ہیں لیکن کیا انسانی فطرت حضرت آدمؑ کے زمانے سے لے کر آج تک بدل سکی ہے؟ دل کا چور تو صرف چوری کا راستہ ہی دکھاتا ہے جو گناہ کی سرزمین سے گزار کر مصیبتوں کی دلدل پر چھوڑنے کی ترکیبیں بنتا ہے اور یہ انکشاف تب ہوتا ہے جب نصیبوں کے پھوٹنے کا رونا رویا جاتا ہے کہ چڑیاں کھیت چگ چکی ہوتی ہیں۔
آج بھی وہ سترہ سالہ نوجوان ماڈل یاد ہے جس نے ایک معروف فوٹوگرافر کے بارے میںبتایا تھا جو اسے ایسے ہی چور کا ہاتھ تھامنے اور ترقی کی راہ پر گامزن کرانے کا وعدہ کرا رہا تھا اور ساتھ ہی آج کل کی کئی اداکاراؤں کے بارے میں دعوے کرکے کہا تھا کہ اس نے ہی انھیں اس مقام تک پہنچایا ہے وہ چھوٹی سی لڑکی انٹرویو دیتے آزردہ تھی اسے ایسے کاسٹنگ کاؤچ کے ماحول سے شکایت تھی کہ وہ ایسا نہیں کر سکتی تھی۔خواتین عزیز و اقارب، اجنبی یا شناسا حضرات سے اخلاق برتتے سوچتی ہیں کہ اگر برے انداز سے پیش آئیں گی تو وہ کیا سوچیں گے ان کے بارے میں، پر یہ بھول جاتی ہیں کہ وہ خود ان کے بارے میں کیا سوچ رہی ہیں، لہٰذا اپنے رب کے پیغام پر توجہ دیں، دل کے چور کو زور سے کک لگائیں، ترقی آپ کے نصیب میں لکھی ہے تو کہیں نہیں جانی، آپ ہی کے پاس آنی ہے۔
