دنبہ کی آمد – ایکسپریس اردو

’’ دنبہ‘‘ جانور ایک اہم مذہبی فریضہ سے منسوب ہے۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں بسے مسلمان کے سامنے جب دنبہ کا ذکر یا حوالہ آتا ہے تو اُس کے ذہن میں فوراً حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ذات سے وابستہ جذبہ قربانی اور توکل عَلَی اللہ کی چاشنی سے لبریز پختہ ایمان کی زندہ جاوید مثال آ جاتی ہے۔

دنبہ، سنتِ ابراہیمی اور پانچ ارکانِ اسلام کا چوتھا رُکن ’’ حج‘‘ یہ تمام ماہِ ذوالحجہ سے منسلک ہیں لیکن دنبہ کی انسانی زندگی میں آمد محض ایک اسلامی مہینے تک محدود نہیں رہتی ہے بلکہ یہ ایک نہ رکنے والا سلسلہ ہے جو علامتی طور پر انسانوں کی زندگیوں میں قدم قدم پر اپنا آپ ظاہر کرتا رہتا ہے اور میری ذات پر یہ انکشاف ابھی چند ماہ قبل ہی عیاں ہوا ہے۔

دنبہ درحقیقت مددِ خداوندی ہے جو کسی بھی رنگ، ساخت اور شکل میں ربِ الٰہی کے صابر بندوں کی زندگیوں میں اُس ذاتِ عظیم کے حکم سے بھیجی جاتی ہے۔ دراصل مددگار تک یہ مدد باآسانی نہیں پہنچتی ہے بلکہ سب سے پہلے تخلیق کا آزمائشی امتحان لیا جاتا ہے جس کے ذریعے اُس کے وجود میں موجود توکل و ایمان کو باریک بینی سے جانچا جاتا ہے پھر اُس کے صبر کو آزمایا جاتا ہے۔ انسان اپنے خالق کی آزمائش میں اگر صابر، شاکر، ثابت قدم اور ایماندار پایا جاتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کی مدد اُس تک پہنچنے سے دنیا کی کوئی بھی طاقت روک نہیں سکتی ہے۔

 یہ باتیں لکھنا اور کہنا جتنا آسان ہے، اس کے برعکس ان حالات سے گزرنا اتنا ہی کٹھن ہے۔ درج بالا باتیں پڑھ کر اگر کوئی انسان سوچ رہا ہے، معاملہ اس قدر سہل ہوگا کہ انسان پر مصیبت آئی اور کچھ وقت گزرنے کے بعد اُس تک خدا تعالیٰ کی مدد پہنچ گئی تو وہ غلطی پر ہے کیونکہ جب اس کائنات کو خلق کرنے والی بڑی ذات کے پسندیدہ بندوں کی فہرست میں اپنی جگہ بنانے کی بات آتی ہے تو دشوار گزار راستوں پر تخلیقِ خداوند کا چلنا لازم و ملزوم ہوجاتا ہے۔

دراصل دنبہ کی جلوہ افروزی سے قبل زیستِ انسانی تابناک حالات سے دوچار ہوتی ہے، جان سولی پر اور تیز دھار چُھری انسان کو اپنے حلق پر رکھی محسوس ہو رہی ہوتی ہے۔ ایک سانس کے بعد دوسری سانس لینا انسان کو محال لگ رہا ہوتا ہے، اُس کا جسم سُن اور عقل بالکل ماؤف ہو جاتی ہے۔ ایسے وقت میں انسان کو اپنے آگے کنواں اور پیچھے کھائی دکھائی دے رہی ہوتی ہے۔ ہر گزرتا لمحہ انسانی وجود پر صرف اور صرف بوجھ میں اضافے کا باعث بن رہا ہوتا ہے جو اُس کی روح کو بھی شدید زخمی کر کے رکھ دیتا ہے۔

قرآنِ کریم کی سورۃ الانبیاء میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں، ’’ اور ہم تمہیں اچھائی اور برائی (دونوں طرح) سے آزماتے ہیں۔‘‘ سورۃ العنکبوت میں ربِ جلیل اس بات کو مزید اس طرح واضح کرتے ہیں، ’’ اور بے شک ہم نے ان لوگوں کو بھی آزمایا جو ان سے پہلے تھے، تاکہ اللہ جان لے کہ واقعی ایمان والے کون ہیں اور جھوٹے کون ہیں۔‘‘

خاتم النبیین حضور اکرم ﷺ نے ایک موقعے پر ارشاد فرمایا، ’’ خداوند عالم ایسے سرکش و نافرمان بندے پر سخت ناراض ہوتا ہے جس کی جان و مال میں کوئی آزمائش یا آفت نہ آئے۔‘‘ رسول اللہ ﷺ سے مذکور ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا، ’’ بڑا ثواب بڑی مصیبت کے ساتھ ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو انھیں آزماتا ہے۔ پس جو اس پر راضی ہو، اس کے لیے (اللہ تعالیٰ کی) رضا ہے اور جو ناراض ہو اس کے لیے ناراضگی ہے۔‘‘

جس طرح حضرت اسماعیل علیہ السلام کا اپنے خالق پر توکل چٹان کی مانند مضبوط تھا تو اُن کے گلے پر رکھی چُھری بھی چل نہ پائی اور دنبہ کی آمد وقوع پذیر ہوئی، بالکل اسی طرح جس انسان کا ربِ الٰہی کی ذات پر پختہ یقین ہوگا طوفان کی خطرناک سے خطرناک موجیں بھی اُس کا بال بیکا نہیں کر پائیں گی۔

ہم انسان اپنی روزمرہ کی زندگی میں بیشمار مشکلات کا سامنا کرتے ہیں جن میں سے بعض کی نوعیت ہلکی جب کہ کچھ نا قابلِ برداشت ثابت ہوتی ہیں جو ہمارا دن کا چین اور راتوں کی نیندیں اُڑا کر رکھ دیتی ہیں، اُس دوران ہمیں اپنا دم گھُٹتا، جان نکلتی اور حلق پر کسی بھی لمحے چلنے کو تیار تیز دھار چُھری محسوس ہو رہی ہوتی ہے۔

یہی رحمٰن و رحیم پر کامل یقین رکھتے ہوئے اُس بڑی ذات کی مدد کو پکارنے کا اصل وقت ہوتا ہے، جس انسان نے اس موقع پر اپنے ایمان و یقین کو متزلزل ہونے سے بچا لیا اور اپنے خالق کو صدقِ دل سے پکار لیا اُس کی چند لمحے قبل نکلتی ہوئی جان اللہ تعالیٰ کی جانب سے بھیجے گئے دنبہ پر ٹل جاتی ہے۔

یہ فلسفہ غیبی مدد اللہ تعالیٰ کے جس بندے کی سمجھ میں آگیا، اُس کے لیے اپنی زندگی میں موجود اذیتوں کو جھیلنا سہل ہو جاتا ہے اور ایک عجب لطف کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جہاں اُسے ہر بار اپنے حلق پر چُھری آنے پر دنبہ کی آمد کا انتظار رہتا ہے کہ ستر ماؤں سے زیادہ اُس سے محبت کرنے والا ربِ کائنات اب کس رنگ، ساخت اور شکل میں اپنی مدد مجھ تک پہنچائے گا اور جیسی ہی دنبہ منظر پر ظاہر ہوتا ہے اُس کے جسم کا روم روم اس کرم نوازی پر سرشار ہوتا ہوا بارگاہِ الٰہی میں سجدہ ریز ہو جاتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں