روشنی کا سفر – ایکسپریس اردو

یہ روشنی کے اس سفر کی کہانی ہے، جو بہت سال پہلے پنجاب کے دورافتادہ علاقوں سے لاہور آنے والے چند صالح نوجوان ڈاکٹروں کے دل میں ایک کرن کی صورت چمکی، اور آج ایک سیلاب ِنور بن کر پورے لاہورکو سیراب کر رہی ہے۔ ابھی کل کی بات ہے، جب ہم کچھ دوست راے ونڈ روڈ پر اس خالی پلاٹ کے پاس کھڑے تھے، اور ڈاکٹر انتظار بٹ اور ان کے دست راست ڈاکٹر زاہد لطیف اشارہ کرکے بتا رہے تھے کہ بہت جلد اس خالی جگہ پر ایک اسٹیٹ آف دی آرٹ آئی اسپتال کی تعمیر شروع ہو جائے گی، جہاں عام معائنے سے لے کر پیچیدہ ترین آپریشن تک، امراض چشم کے علاج کی ہر سہولت، بغیرکسی سماجی، مذہبی اور سیاسی امتیاز کے، سو فی صد مفت دستیاب ہو گی۔

اس روز جب وہ اس آئی اسپتال کا یہ روح پرور نقشہ کھینچ رہے تھے، تو اس خواب کا مستقبل قریب میں شرمندہ تعبیر ہونا، ناممکن نہیں تو مشکل ضرور نظر آتا تھا؛ خصوصاً یہ دیکھتے ہوئے کہ نہ تو ان کو کسی سرکاری فنڈنگ کا آسرا تھا، اور نہ میڈیا کی تشہیری مہم، یا ایوان ِاقتدار میں رسائی رکھنے والے صحافتی پنڈتوں پر ان کا کوئی انحصار تھا۔ انھیں تو فقط’ اک دولت ایمان ہمیں بس ہے‘ کا سہارا تھا، اور بے شک یہ وہ سہارا ہے، جو آدمی کو دنیا کے باقی سارے سہاروں سے بے نیاز کر دیتا ہے۔

اس حقیقت ِابدی کا ادراک چند روز پہلے ایک بار پھر اس طرح ہوا، جب راے ونڈ روڈ پر اسی مقام پر، جہاں کچھ سال پہلے ہم ایک غیرآباد پلاٹ دیکھتے تھے، آج ایک اسٹیٹ آف دی آرٹ آئی اسپتال، روشنی کے مینار کے مانند، ہمارے سامنے کھڑا تھا۔کچھ دیر بعد ہم اس کے جدید ترین کمیٹی روم میں بیٹھے تھے، جہاں ڈاکٹر انتظار بٹ اور ڈاکٹر زاہد لطیف محو کلام تھے کہ سردست ایک سو مریض روزانہ اس اسپتال سے مسفید ہو رہے ہیں، لیکن بہت جلد یہ روزانہ ایک ہزار مریضوں کی اشک شوئی کے قابل ہو جائے گا، اور یوں پورا پنجاب اس سے فیض یاب ہوسکے گا۔ اگر’ ڈاکٹر انتظار حسین بٹ‘کا بھاری بھرکم نام پڑھ کر آپ اپنے ذہن میں گوجرانوالاکے کسی پہلوان کا خاکہ بنا کے بیٹھے ہیں تو آپ غلط سوچ رہے ہیں۔

پہلی نظر میں، وہ لکھنو کے کوئی دھان پان اور مرنجان مرنج شاعر معلوم ہوتے ہیں۔ متوسط قد، اکہرا بدن، باریک نین نقش، آواز اور لہجہ کسی سبک خرام ندی کے ایسا نرم، دھیما اور پرسکون، موٹی موٹی شرمگیں آنکھیں،گورا رنگ، اور چہرے پر ہلکی ہلکی ڈاڑھی، جو سر کی تقلید میں سفید ہوتی جا رہی ہے۔

کم آمیز تو ہیں ہی ،کھانا بھی ان کو ہاتھ روک کر ہی کھاتے دیکھا، اس آدمی کی طرح جو اپنے حصے کا لقمہ دوسروں کو کھلا کر خود کو زیادہ سیر محسوس کرتا ہے۔ حال ہی میںسروسز اسپتال سے ریٹائر ہوئے ہیں، اور اب خود کو مکمل طور پر خدمت انسانیت کے لیے وقف کر چکے ہیں۔ یہ ڈاکٹر انتظارحسین بٹ، جو برسوں پہلے میڈیکل کے طالب علم کی حیثیت سے نارووال کے سکنہ سگل چھیناں سے لاہور وارد ہوئے تھے،’ پی او بی‘Prevention of Blindness ٹرسٹ کے روح و رواں ہیں، جو امراض چشم کے مفت علاج کے حوالہ سے عالمی شناخت رکھنے والا ادارہ بن چکا ہے، اور اسی کے تحت مذکورہ بالا آئی اسپتال برسرعمل ہے۔

’پی او بی‘ شروع میں پاکستانی ڈاکٹروں کے عالمی تنظیم ’پیما‘ Pakistan Islamic Medical Association  کا آئی ونگ تھا، لیکن ڈاکٹر انتظار بٹ، ڈاکٹر زاہد لطیف اور ان کے دیگر ساتھیوں کی شبانہ روز محنت کی بدولت اس ادارہ نے انتہائی قلیل مدت میں اتنی وسعت اختیار کر لی کہ ’پیما‘ نے اس کو خودمختارکر دیا۔ اس کے بعد سے یہ ٹرسٹ ایکٹ کے تحت ’پی او بی‘ کے نام سے بروئے کار ہے اور آزاد کشمیر سمیت پاکستان کے چاروں صوبوں میں سرگرم کار ہے۔ اس کے ابتدائی ارکان میں انتظار حسین اور زاہد لطیف کے علاوہ راجہ ممتاز، عثمان سعید، طاہر فاروق، اظہر قاضی، حفیظ الرحمان، عمران اعظم، شایان، حماد زہری اور مظہر الحق کے نام نمایاں ہیں۔ آج ملک کے طول و عرض میں سیکڑوں ماہرین امراض چشم اور آئی سرجن اس ادارہ سے منسلک ہیں، اور ہمہ وقت اس کی ایک کال پر ملک کے اندر اور باہر مفت خدمات انجام دینے کے لیے آمادہ و تیارہوتے ہیں۔’پی او بی‘کی مکمل طور پر مفت سروس سے اب تک لاکھوں مریضوں کا چیک اپ اور ہزاروں کی سرجری ہو چکی ہے۔

’پی او بی‘ کا دائرہ کار اصلاً تو پاکستان ہی ہے، تاہم بیرون ملک اس کی خدمات بھی کم نہیں؛ خاص طور پر افریقی ملکوں سوڈان، نائجیریا، چاڈ، مالے، صومالیہ، سینیگال میں، جہاں آنکھوں کے امراض باقی دنیا سے کہیں زیادہ ہیں، اور جہاں خوفناک غربت کے باعث لوگ اپنا علاج کرانے کی سکت بھی نہیں رکھتے۔ بعض عالمی رپورٹوں کے مطابق، افریقہ میں ’پی او بی‘ کا کام یورپی تنظیموں سے بھی بڑھ کے ہیں۔ یہیں ویسٹ ڈارفر میں بہت سال پہلے جب ’پی او بی‘ نے پہلی بارآئی کیمپ لگایا اور سرجری شروع کی، تو معلوم ہوا کہ ڈارفرکی تاریخ میں یہ پہلی آئی سرجری ہے۔ واپسی پرگورنر نے ’پی او بی‘ کے اعزاز میں الوداعی دعوت منعقد کی، اور پُرنم آنکھوں سے اُن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا، ’آج سے پہلے یہاں جو اندھا ہوتا تھا، اندھا ہی مر جاتا تھا، پرآپ پاکستانیوں نے توکرشمہ کر دکھایا۔ آپ ہمارے محسن ہیں۔ آج ڈارفر میں ایک انتہائی اعلیٰ معیارکا آئی اسپتال ماہر ڈاکٹروںکی زیر نگرانی بروئے کار ہے۔ اندرون اور بیرون ملک ’پی او بی‘ کے آئی کیمپوں کی جو چیز منفرد اور ممتازکرتی ہے، وہ یہ ہے کہ کسی مقام پر آئی کیمپ کے انعقاد سے پہلے یہ لوگ پورا ہوم ورک کرتے ہیں،کہاں چیک اپ ہو گا، کہاں آپریشن تھیٹر بنے گا، ہنگامی صورت میں مریض کو کس قریبی اسپتال منتقل کرنا ہے، یعنی پورا انفرااسڑکچرکھڑا کیا جاتا ہے، جہاں مفت ادویہ، سرجری، عینکوں اور لینز کے ساتھ ساتھ مریضوں کے لیے مفت کھانے کا بندوبست بھی ہوتا ہے۔

حقیقتاً ’پی او بی‘ کے اندرن و بیرون ملک پھیلے ہوئے وسیع کام کو دیکھ کر اس خدائی وعدے پر یقین سوا ہو جاتا ہے کہ جب کوئی کام نمود و نمایش سے بے نیاز ہو کر، خالص خدا کی رضا اور تنہا اسی کے سہارے پر شروع کیا جاتا ہے، تو خدا اس میں اس طرح برکت ڈالتا ہے کہ اس کام کی تکمیل، استحکام اور ترقی کے لیے اپنے غیب کے خزانوں کے منہ کھول دیتا ہے، کن فیکون۔دیکھنے میں آیا ہے، آج کل ’خدمت انسانیت‘ کے اکثر علم بردار عام دنیاداروں سے بڑھ کے شہرت پسند واقع ہوئے ہیں، اور اپنی ’خدمات‘ کے صلہ اسی دنیا میں وصول کرنے کے حریص نظر آتے ہیں، بلکہ اس کے لیے فیاضی کے ساتھ اداروں کے فنڈز خرچ کرنے کو بھی ’کار ثواب‘ سمجھتے ہیں۔ مگر، ڈاکٹر انتظار حسین اور ڈاکٹر زاہد لطیف کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔

میں نے ان کو اس حوالہ سے ہمیشہ پرعزم اور یکسو پایا ہے کہ وہ اس اسپتال کو کسی صورت شخصی نمود و نمایش سے آلودہ نہیں ہونے دیں گے۔ مجھے یاد ہے، جب کسی نے از رہ خلوص بھی یہ مشورہ دیا کہ کم ازکم انھی، یعنی ڈاکٹر انتظار اور ڈاکٹر زاہد کا ایک ایک پورٹریٹ اسپتال کے کوریڈور میں آویزاں کر دیا جائے، تو اسے بھی انھوں نے قبول نہیں کیا، بلکہ ڈاکٹر انتظار بٹ تو اس حد تک محتاط ہیں کہ ’پی او بی‘ کے سیمیناروں بھی میں خود کو پس منظر میں رکھتے ہیں۔ اسی طرح اگر کسی نے یہ تجویز دی کہ روز بروز بڑھتے ہوئے اخراجات کا بوجھ کچھ کم کرنے کے لیے مفت علاج کے ساتھ ساتھ رعایتی علاج کا آپشن بھی متعارف کرایا جائے، تو اس کے جواب میں بھی وہ شان بے نیازی سے مسکراتے ہیں اورکہتے ہیں،حسبنا اللہ و نعم الوکیل۔ ؎

با توکل بر خدا عالم گلستان می شود

خرم و سرسبز ہم ہر باغ و بوستان می شود  

اپنا تبصرہ لکھیں