آج کل ایک سوال بہت اہم ہے کہ کے پی میں جو بھی ہوا ہے، کیا وہ کپتان کی مرضی سے ہوا ہے؟ کیا سینیٹ کی سیٹوں کے لیے دوسری سیاسی جماعتوں سے جو مفاہمت ہوئی‘ اس میں کپتان کی مرضی شامل تھی‘ کیا جو ٹکٹیں دی گئی ہیں وہ کپتان کی مرضی سے دی گئی ہیں؟ کیا پنجاب میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جو مفاہمت ہوئی ہے‘ اس میں کپتان کی مرضی شامل ہے؟ ایک سوال ہے کہ کیا مرزا آفریدی کا ٹکٹ کپتان کی مرضی سے دیا گیا ہے کہ نہیں؟
پہلی بات تو یہ سب مانیں گے کہ تحریک انصاف کوئی جمہوری جماعت نہیں۔ اس میں فیصلے کوئی جمہوریت سے نہیں ہوتے۔ یہاں کپتان کا راج ہے، فرد واحد اس کا مالک ہے۔ فرد واحد کا حکم چلتا ہے۔ جماعت میں کسی کی کوئی حیثیت نہیں۔ جان بوجھ کر کپتان نے ڈمی لوگ آگے کیے ہوئے ہیں، تا کہ وہ کبھی کپتان کی کپتانی کو چیلنج نہ کر سکیں۔ آپ دیکھ لیں کہنے کو تو بیرسٹر گوہر تحریک انصاف کے چیئرمین ہیں۔ لیکن کیا کوئی ان کو چیئرمین ماننے کو تیار ہے۔
سیکریٹری جنرل، سلمان اکرم راجہ ہیں۔ لیکن کوئی ان کو بھی سیکریٹری جنرل ماننے کو تیار نہیں۔ ان عہدوں پر نامزد ہونے سے پہلے ان کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں تھی۔ تحریک انصاف کا ورکر اور قیادت ان کو جانتی بھی نہیں تھی اور آج بھی نہیں جانتی۔ میری رائے میں اتنے اجنبی سیاسی لوگوں کی نامزدگیاں اس لیے کی گئی ہیں کہ وہ کبھی کپتان کی کپتانی کو چیلنج نہ کر سکیں۔ وہ کل بھی ڈمی تھے، وہ آج بھی ڈمی ہیں، وہ صرف کپتان کے احکامات پر انگوٹھا لگانے کے لیے عہدیداران ہیں۔
یہی حال باقی سب کا بھی ہے۔ لوگ گنڈا پور کی بہت بات کرتے ہیں۔ ایک رائے ہے کہ وہ بانی سے بغاوت کر رہے ہیں، وہ اسٹبلشمنٹ سے تعاون کپتان کی مرضی کے بغیر کر رہے ہیں۔ حالیہ سینیٹ کی ٹکٹیں علی امین گنڈاپور نے کپتان کی مرضی کے بغیر دی ہیں۔ معصوم کپتان کو تو کچھ علم ہی نہیں۔ میں سمجھتا ہوں یہ تاثر درست نہیں ہے۔
گنڈاپور جو بھی کر رہے ہیں کپتان کی مرضی سے کر رہے ہیں۔ یہ کپتان کا مزاج ہی نہیں کہ وہ اپنی جماعت میں اختلاف اور بغاوت کو برداشت کرے۔ کپتان نے ہمیشہ باغیوں کو کچل دیا ہے۔ ان کا سیاسی نام و نشان مٹا دیا ہے۔ کپتان کی کتاب میں ان سے بغاوت کی معافی نہیں۔ یہ بات گنڈا پور جانتا ہے۔ گنڈاپور کو پتہ ہے کہ ان ٹکٹوں کو کپتان کی آشیر باد حاصل ہے۔ اگر نہ ہوتی تو اب تک کپتان کا جواب آچکا ہوتا ۔ کپتان کی خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ کپتان اس کھیل میں شامل ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ کپتان کی ملاقاتیں مکمل بند ہیں۔ منگل کو دو بہنیں ملی تھیں۔ پیغام تو ان کے ہاتھ بھی آسکتا تھا۔ اگر خاموشی ہے تو سمجھیں۔ کپتان راضی ہے۔
مرزا آفریدی کی ٹکٹ کا زیادہ شور ہے۔ ان سے اگر فنڈنگ لی گئی ہے تو وہ کوئی گنڈا پور نے تو نہیں لی ہوگی۔مرزا آفری پہلے بھی کپتان کو فنڈنگ کرتے رہے ہیں۔ لہٰذا فنڈنگ لی ہے توکپتان نے ہی لی ہے۔انھیں ٹکٹ بھی کپتان نے دیا ہے۔ جب آپ فنڈنگ لیتے ہیں تو اس کا احسان یا قرض بھی ادا کرنا ہوتاہے۔ میں فواد چوہدری کی اس بات سے متفق ہوں کہ اگر ان کے پاس بھی پیسے ہوتے تو انھیں تحریک انصاف میں واپسی کا راستہ مل جاتا۔ فواد چوہدری صاحب ایک تو آپ غریب ہیں، اوپر سے تیز مزاج بھی ہیں۔ ہمارے دوست کہتے ہیں غربت اور جارحانہ اکٹھے نہیں چل سکتے۔ میں فواد چوہدری کو مرزا آفریدی اور دیگر ڈونٹرز کے مقابلے میں غریب کہہ رہا ہوں۔ ویسے تو ان پر اللہ کی کافی رحمت ہے۔ لیکن بہرحال وہ اے ٹی ایم نہیں ہیں۔
کیا تحریک انصاف کے جن کارکنوں کے بارے میں ساری تحریک انصاف کہہ رہی ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ ان کو ٹکٹ نہ دینا میرٹ کی خلاف ورزی ہے۔ ان کے ساتھ ماضی میں بھی زیادتیاں ہوئی ہیں۔ اب کیا کوئی اس سوال کا جواب دے سکتا ہے کہ یہ تحریک انصاف کے اندر ہمیشہ سیاسی کارکنوں کے ساتھ ہی زیادتی کیوں ہوتی ہے؟ کارکنوں کا حق کیوں مارا جاتا ہے؟ کبھی کسی پیسے والے کے ساتھ تو تحریک انصاف میں زیادتی نہیں ہوئی ہے۔
کبھی اس کا حق تو نہیں مارا گیا۔ اے ٹی ایم تو نیب زدہ بھی قابل قبول رہے ہیں۔ نیب کی حوالات سے نکل کر سیدھے وزیر بھی بنائے گئے ہیں۔ اس لیے جن کارکنوں کے لیے تحریک انصاف کا سوشل میڈیا آواز اٹھا رہا تھا ۔ ان کی ٹکٹوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کپتان ہی تھا۔ انھیں پہلے بھی ٹکٹ کپتان نے نہیں دیے تھے اب بھی ٹکٹ کپتان نے ہی نہیں دیے۔
یہ ممکن ہی نہیں کہ کپتان ان کو ٹکٹ دینا چاہتا ہو اور گنڈا پور روک لے۔ اگر اڈیالہ نے انھیں ٹکٹ دیے ہوتے تو کسی کی مجال نہیں تھی کہ روک سکتا۔ مشال یوسفزئی کی مثال سب کے سامنے ہے۔ گنڈاپور تو اس کے بھی حق میں نہیں ہے۔ پھر سیاسی کمیٹی ان ٹکٹوں کی بار بار توثیق کوئی گنڈا پور کے لیے نہیں کر رہی۔ انھیں پتہ ہے کہ یہ کپتان کے امیدوار ہیں۔ اسی لیے توثیق کی جا رہی ہے۔ باغیوں کو بٹھانے کے لیے طاقت کوئی گنڈاپور کے لیے نہیں لگائی جا رہی بلکہ اس لیے لگائی جا رہی ہے کہ کپتان کے امیدواروں کو کامیاب بنانا ہے۔ ہمارے سوشل میڈیا کے دوست اب کپتان کوبے قصور ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالانکہ انھیں صورتحال کا علم ہے۔
کے پی میں سینیٹ انتخابات کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں سے مفاہمت کو بھی کپتان کی آشیر باد حاصل ہے۔ یہ کپتان کی کوئی نئی حکمت عملی نہیں۔ شاید دوست بھول جاتے ہیں۔ جب کپتان وزیر اعظم تھا اور پنجاب میں سینیٹ کے انتخابات ہوئے تھے تب بھی اسی طرح مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی سے مفاہمت کر لی گئی تھی۔ عثمان بزدار وزیر اعلیٰ تھے اور چوہدری پرویز الٰہی اسپیکر پنجاب اسمبلی تھے۔ تب بھی ایسی ہی مفاہمت ہوئی تھی۔ کپتان سیٹوں کے لیے ایسی مفاہمت کے ہمیشہ حق میں رہا ہے۔
اب بھی اس مفاہمت کو کپتان کی مکمل آشیر باد حاصل ہے۔ ورنہ کسی میں جرات نہیں تھی کہ اس بارے میں سوچ بھی سکتا۔ سیاسی کمیٹی کو توڑ نہ دیا جاتا اگر وہ کپتان کی مرضی کے بغیر ایسی کسی مفاہمت کی منظوری دیتی۔ اگر کپتان کی آشیر باد نہ ہوتی تو سلمان اکرم راجہ سب کو دستبردار کروانے کے لییبھاگ دوڑ نہ کر رہے ہوتے۔ وہ کہتے میرا کیا تعلق ہے۔وہ بھی کپتان کی ڈیوٹی پر ہیں۔ اس لیے سمجھیں جو ہو رہا ہے کپتان کی مرضی سے ہو رہا ہے۔ جو ہوا ہے کپتان کی مرضی سے ہوا ہے۔ اور تحریک انصاف میں کسی کی جرات نہیں کپتان کی حکم عدولی کر سکے۔ پارٹی میں وہ حاکم ہیں۔ باقی محکوم ۔