سرینڈر پالیسی، دھمکیاں اور خدشات

کچے کے ڈاکوؤں کو پکڑنے میں مسلسل ناکامی کے بعد صدر آصف زرداری کی ہدایت پر سندھ حکومت کو سندھ سرینڈر پالیسی بنانا پڑی اور علاقے کے بااثر افراد، زمینداروں اور ارکان اسمبلی کو خفیہ طور پر ذمے داری سونپی گئی کہ وہ اپنے زیر اثر علاقوں میں کچے کے ڈاکوؤں سے رابطہ کریں اور انھیں حکومت سندھ کے آگے خود کو سرینڈر کریں اور ہتھیار پھینک کر خود کو قانون کے حوالے کر دیں تو انھیں حکومت کی طرف سے رعایت اور قانونی معاونت فراہم کرکے ریلیف دیا جائے گا۔

اس سرینڈر منصوبے پر اندرون خانہ کام ہوتا رہا، علاقائی سرداروں نے بھی اپنا اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا اور کچے کے ڈاکوؤں سے رابطے کرکے انھیں سندھ سرینڈر پالیسی سے فائدہ اٹھانے کا مشورہ دیا جس پر عمل ہونا شروع اور راقم کے آبائی شہر شکارپور سے سرینڈر پالیسی پر عمل کا اعلان ہوا اور پہلے مرحلے میں 70 سے زائد ڈاکوؤں نے خود کو حکومت کے حوالے کیا اور اپنے اپنے ہتھیار پالیسی کے تحت ایس ایس پی آفس میں پولیس کے حوالے کر دیے۔ اس تقریب کے لیے وزیر داخلہ سندھ ضیا النجار آئی جی سندھ کے ہمراہ شکارپور پہنچے جہاں ان کے استقبال کا ریڈ کارپٹ انتظام بھی کیا گیا تھا۔

 سرینڈر پالیسی کے تحت محکمہ داخلہ سندھ نے دو روز قبل اخبارات میں نمایاں طور پر اشتہارات میں اس پالیسی کو حکومت سندھ کے عزم کی جیت قرار دیتے ہوئے عوام کو بتایا کہ کچے میں امن کا سورج طلوع ہو رہا ہے اور سندھ پولیس کی انتھک محنت، قربانیوں اور عوامی حوصلے سے کچے کا علاقہ واگزار اور سکھر و لاڑکانہ ڈویژن میں کچے کے ڈاکو رضاکارانہ طور پر ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہو گئے ہیں جس سے علاقے میں پائیدار امن قائم ہوگا اور کچے میں برسوں سے خوف کی علامت بنے ہوئے یہ ڈاکو ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہوں گے۔ ان 50 ڈاکوؤں کے سر کی قیمت مقرر تھی جس سے صوبے میں جرائم کا خاتمہ ہوگا۔

محکمہ داخلہ کے اشتہار میں 50 ڈاکوؤں کے رضاکارانہ ہتھیار ڈالنے کا ذکر تھا مگر 22 اکتوبر کو شکارپور میں منعقدہ خصوصی پروگرام میں 70 سے زائد کچے کے ڈاکوؤں کے ہتھیار ڈالنے کی خبریں میڈیا میں آئی ہیں جب کہ وزیر داخلہ سندھ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ سرینڈر پالیسی کے تحت ہتھیار ڈالنے والوں نے احسن اقدام کیا ہے۔ حکومت سندھ چاہتی ہے کہ آپ کے بچوں کو تعلیم دیں اور ان کا مستقبل روشن کریں۔ انھوں نے یہ دھمکی بھی دی کہ تمام ڈاکو خود کو سرینڈر کر دیں بصورت دیگر انھیں گھر میں گھس کر ماریں گے۔

وزیر داخلہ کی یہ دھمکی اس وقت غیر ضروری تھی کیونکہ سرینڈر پالیسی ڈاکوؤں کی درخواست پر نہیں بلکہ صدر زرداری کی ہدایت پر حکومت سندھ نے خود بنائی جس کو کامیاب مختلف سرداروں نے کرایا۔ جن کے اقدام کو خود وزیر داخلہ نے سراہا کہ جن کی وجہ سے ڈاکو ہتھیار ڈالنے پر رضامند ہوئے ہیں۔ اس موقع پر ڈی آئی جی لاڑکانہ نے بتایا کہ سرینڈر کرنے والے 70 سے زائد ڈاکوؤں نے 209 ہتھیار ڈالے ہیں۔ 282 ڈاکوؤں نے خود کو سرینڈر کرنے کی درخواست کی ہے اور 70 سے زائد ڈاکوؤں کی درخواستیں منظور کی گئی ہیں۔

کچے کے علاقوں میں سندھ کے شکارپور، کشمور، گھوٹکی، خیرپور کے اضلاع اور پنجاب کا ضلع رحیم یار خان شامل ہیں اور کئی سالوں سے انھوں نے اغوا و دیگر وارداتوں کا سلسلہ عروج پر پہنچایا ہوا تھا اور ڈاکو سوشل میڈیا کا بھی استعمال کرکے ملک بھر میں لوگوں کو مختلف پیشکشیں کرکے بلا کر ٹریپ میں پھنساتے اور اغوا کر لیتے تھے۔

اغوا کیے جانے والوں کے ورثا سے رابطہ کرکے لاکھوں روپے تاوان وصول کرتے تھے۔ کچے کے ان ڈاکوؤں نے پولیس اہلکاروں اور دیگر متعدد افراد کو اغوا کیا اور انھیں بے دردی سے نشانہ بنا کر ان کی تصاویر مغویوں کے ورثا کو بھیج کر منہ مانگا تاوان طلب کرتے تھے اور تاوان نہ ملنے پر متعدد مغویوں کو ہلاک بھی کرکے ان کی لاشیں جنگلوں میں پھینک دیتے تھے۔شکارپور میں منعقدہ تقریب کے بعد اعلیٰ حکام، سرداروں ، ڈاکوؤں، مہمانوں کی بہترین اقسام کے کھانوں سے تواضح کی گئی۔

 سندھ حکومت اور پولیس کی طرف سے شہریوں کو خبردار کیا جاتا تھا کہ وہ ہوشیار رہیں اور سوشل میڈیا پر دیے جانے والے پرکشش اشتہاروں کے جھانسے میں نہ آئیں مگر سستی اشیا کی خریداری اور رشتے کے حصول میں لالچی لوگ کچے کے علاقوں میں آتے جنھیں کچے کے ڈاکو یرغمال بنا کر اپنی کمین گاہوں میں لے جاتے تھے جو انھوں نے کچے اور جنگلوں میں بنا رکھی تھیں۔سندھ پولیس کے ان ڈاکوؤں سے متعدد مقابلے ہوئے جن میں پولیس کا جانی نقصان بھی ہوا۔

کچے کے ڈاکو پولیس چھاپوں میں پکڑے جانے کے خوف سے مغویوں کو ہلاک کر دیتے یا چھوڑ دیتے تھے۔ کچے کے ڈاکو سوشل میڈیا کا نہ صرف استعمال کرتے تھے بلکہ حکومت سے عام معافی کا مطالبہ بھی کرتے تھے۔ لوگوں کے لالچ کا بھی یہ حال ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی وہ گاڑیاں، جانور و دیگر اشیا سستی خریدنے کچے کے علاقوں میں پہنچ جاتے اور بعد میں اپنے ورثا سے اپیل کرتے کہ ڈاکوؤں کے مطالبے پر رقم دے کر ہمیں رہائی دلائیں۔

وزیر داخلہ سندھ نے ہتھیار نہ ڈالنے والے ڈاکوؤں کو دھمکی بھی دی ہے جس کے نتیجے میں دیگر ڈاکوؤں کی طرف سے بھی ہتھیار ڈالے جائیں گے۔ شکارپور میں ہتھیار ڈالنے والے ڈاکوؤں میں شکارپور کے علاقے گوٹھ تیغانی سے تعلق رکھنے والے ڈاکوؤں پر سندھ حکومت کی طرف سے پندرہ لاکھ سے ساٹھ لاکھ روپے انعام مقرر تھا۔

ہتھیار ڈالنے والے ڈاکوؤں کے مستقبل کا فیصلہ عدالتیں کریں گی مگر لوگوں نے ان تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے کہ حکومت انھیں کیسے روزگار فراہم کرے گی، کیونکہ یہ ڈاکو لاکھوں روپے تاوان لے کر پرتعیش زندگی کچے کے علاقوں میں گزارتے تھے۔ ثبوت اور گواہ نہ ہونے پر وہ عدالتوں سے رہا بھی ہو جائیں گے۔ کراچی میں شکارپور سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی سرینڈر پالیسی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس پالیسی سے شکارپور کے حالات میں بہتری کی امید کم ہے اور آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ یہ پالیسی کہاں تک کامیاب ہوگی۔

اپنا تبصرہ لکھیں