رواں ماہ پاکستان کو آزاد ہوئے 78 سال مکمل ہو رہے ہیں۔ ہر سال 14 اگست کو یومِ آزادی پورے قومی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ بچے، بڑے، بوڑھے، جوان خواتین حضرات سب ہی کسی نہ کسی طرح اس جذبے کا اظہار کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ سبز ہلالی پرچم فضا میں لہراتے ہیں، ملی نغمے گونجتے ہیں اور اس ملک کے لیے دی گئی قربانیوں کی یادیں تازہ کی جاتی ہیں۔
لیکن آزادی کا جشن مناتے ہم لوگ کیا آزادی کا درست مقصد اور معنی جانتے ہیں؟ کیا واقعی ہم ذہنی طور پر آزاد ہیں یا 14 اگست کو ہم نے پاکستان کے نام پر صرف زمین کا ایک ٹکڑا ہی آزاد کرایا تھا؟ کیا ہماری سوچ اور مقصد آزاد ہیں اور اگر ہم آزاد ہیں، تو کیا ہم یہ آزادی مذہب، نسل، صنف، ذات پات سے بالاتر ہوکر سب کے لیے تسلیم کرتے ہیں؟
تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ تحریکِ آزادی میں خواتین کا کردار کسی بھی طرح مردوں سے کم نہ تھا۔ ان خواتین نے محض نعرے بازی یا جلسوں میں شرکت نہیں کی، بلکہ عملی میدان میں آگے بڑھ کر قربانیاں بھی دیں، قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلیں، اور اپنے بیٹوں کو وطن پر قربان کرنے سے بھی کوئی دریغ نہ کیا۔ کتنی ہی ماؤں نے اپنے جگر گوشوں کو اِس پاکستان کی مٹی کے لیے قربان کیا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے صنف نازک کی ان قربانیوں کی لاج رکھی؟ کیا ہم نے آزادی کے ان 78 سالوں میں عورت کو اس کا جائز مقام دیا؟ کیا وہ عورت جس نے قیام پاکستان کے لیے قربانیوں کے ساتھ ساتھ اہم کردار ادا کیا وہ عورت جو تحریکِ پاکستان میں عظمت و ہمت کی علامت تھی کیا آج اس پاکستان میں محفوظ ہے؟
آج بھی جب ہم اخبارات اور ٹی وی چینل پر نظر ڈالتے ہیں، تو خواتین سے متعلق خبروں کا منظرنامہ بہت دل خراش اور افسوس ناک ہوتا ہے۔ کہیں غیرت کے نام پر بہن کو قتل کیا جاتا ہے۔ کہیں شوہر اپنی بیوی پر کبھی ذہنی تو کبھی جسمانی تشدد کر کے اسے مار ڈالتا ہے۔ کہیں لڑکی کو شادی سے انکار پر تو کہیں اپنی پسند سے شادی کرنے پر قتل کر دیا جاتا ہے یا زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ کہیں بہو کو بیٹی کی پیدائش پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ تو کہیں ہوّا کی بیٹی کو آبروریزی کا نشانہ بنا کر لاش ویرانے میں پھینک دی جاتی ہے اور یہ سب اس پاکستان میں ہو رہا ہے، جس کے لیے ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا۔ آج اگر ہم جائزہ لیں، تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے صرف زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کیا، اپنی سوچ کو ہم 78 سال بعد بھی فرسودہ رسم و رواج سے آزاد نہ کرا سکے۔
پاکستانی معاشرے میں ایسی سوچ اتنی گہری ہے کہ یہ اکثر شعوری طور پر محسوس بھی نہیں کی جاتی۔ عورت کا گھر سے نکلنا، نوکری کرنا، تعلیم حاصل کرنا، اپنی پسند سے زندگی گزارنے کا خواب دیکھنا، سب کچھ اب بھی ایک بڑے طبقے کو ناگوار گزرتا ہے۔ لڑکیوں کو وراثت سے محروم رکھے جانے سے لے کر بچپن میں شادی کروا دینے تک کون سی ایسی روایت ہے، جس سے معاشرے نے اپنے آپ کو آزادی دلائی ہو؟ بیٹیوں کی زندگی میں گھریلو کام اور تعلیمی میدان میں توازن پیدا کرنے کے بہ جائے ان کو بچپن سے زندگی کے صرف ایک پہلو کے حوالے سے تربیت اور راہ نمائی فراہم کی جاتی ہے۔ کیریئر بنانے والی خواتین کو مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ وہ رویّے ہیں، جو عورت کو بظاہر ’’عزت‘‘ کے پردے میں قید رکھتے ہیں، مگر اصل میں اس کی ترقی، شناخت اور خودمختاری کو دباتے ہیں۔
پاکستانی معاشرے میں ’غیرت کے نام پر قتل‘ ایک ایسا سیاہ داغ ہے، جو پاکستانی معاشرے کے چہرے سے کسی طور دھلنے کا نام نہیں لیتا۔ چاروں صوبوں میں یہ گھناؤنا کام مختلف ناموں سے جاری ہے۔ عورت کو خاموش کروانا، دبانا، اور قتل کرنا، صرف اس لیے کہ وہ اپنی مرضی سے جینے کی خواہش رکھتی ہے۔
دوسری جانب فرسودہ رسم و رواج کا مقیّد ہمارے معاشرے کا شعور قاتل کو خاندان کا ہیرو سمجھتا اور بتاتا ہے۔ قانونی نظام خاموش رہتا ہے، کمزور ہوتا ہے یا پھر کسی نہ کسی شک یا قانونی سقم کے سہارے قاتل کو بچا لیا جاتا ہے۔ مقتولہ کے ورثا صلح کر لیتے ہیں یا خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ یعنی، عورت کی جان کی قیمت اب بھی اتنی کم ہے کہ اسے روایات اور غیرت کے نام پر چپ چاپ قربان کر دیا جاتا ہے۔
پاکستان کے آئین اور قانون میں خواتین کے لیے تحفظ کی متعدد قوانین موجود ضرور ہیں، جن میں خواتین کے لیے مخصوص نشستیں، وراثتی حقوق کا تحفظ، خواتین پر تشدد کے خلاف قانون سازی، زیادتی اور ہراسانی کے خلاف قوانین وغیرہ شامل ہیں، لیکن سوال یہ ہے کیا یہ قوانین آج تک واقعی عورت کو تحفظ فراہم کر سکے ہیں؟
نہیں! حقیقت یہ ہے کہ قانون کی موجودگی کے باوجود ان پرعمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ پولیس کا رویہ، عدالتی نظام کی سست روی، گواہوں کی عدم موجودگی، اور سماجی دباؤ، سب مل کر انصاف کے راستے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
بحیثیت معاشرہ ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ قوموں کی ترقی صرف زمین کے حصول یا جھنڈے لہرانے سے نہیں ہوتی، بلکہ سوچ کی آزادی، برابری، انصاف اور انسانی حقوق کے احترام سے ہوتی ہے۔
اگر عورت اب بھی اپنے وجود، اپنے خوابوں اور اپنی زندگی کے فیصلوں میں آزاد نہیں، اگر وہ اب بھی فرسودہ روایات، جھوٹی غیرت اور معاشرتی پابندیوں کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے اور دقیانوسی رسم و رواج کی بھینٹ چڑھا دی جاتی ہے، تو ایسی آزادی صرف سطحی اور ظاہری خوشی ہے، روحانی قید نہیں تو اور کیا ہے؟
اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنا احتساب خود کریں۔ ہمیں نئی نسل کو ایسے نصاب، تربیت اور ماحول دینا ہوگا، جہاں لڑکیاں اور لڑکے برابر سمجھے جائیں۔ لڑکی کی تعلیم صرف زیور نہیں، اس کا حق سمجھا جائے۔ عورت کی خودمختاری کو بے راہ روی نہ سمجھا جائے۔ ہمیں ایسے وطن کی ضرورت ہے، جہاں پسند کی شادی جرم نہ ہو۔ مرد کی غیرت عورت کی زندگی کی قیمت پر نہ تولی جائے۔ میڈیا، اسکول، والدین، علما، قانون نافذ کرنے والے ادارے، سب کو مل کر اس ظالمانہ سوچ کو بدلنے کی کوشش کرنی ہوگی۔
اب جب ہم جشنِ آزادی منانے کی تیاریاں کر رہے ہیں، تو لازم ہے کہ ہم اپنے آپ سے یہ سوال پوچھیں کہ کیا وہ عورت جس نے مرد کے شانہ بہ شانہ اس ملک کے لیے اپنا سب کچھ قربان کیا، آج واقعی آزاد ہے؟ کیا وہ بہن، ماں، بیٹی، جو کل بھی قربانی دے رہی تھی، آج بھی اسی قربانی کی صلیب پر چڑھی ہوئی ہے؟
ہمیں ایک ایسے پاکستان کی طرف بڑھنا ہے، جہاں عورت کو صرف ایک ’عورت‘ نہیں، بلکہ ایک مکمل انسان سمجھا جائے۔ جہاں آزادی کا مطلب صرف سرحدوں کی حفاظت نہیں، بلکہ ضمیر، عزت اور اختیار کی حفاظت بھی ہو۔ تبھی ہم حقیقی آزادی کا جشن منا سکیں گے، ورنہ ہر سال 14 اگست کو پرچم ضرور لہرائے گا، لیکن ایک عام عورت کی امیدیں سرنگوں ہی رہیں گی۔