قانونی اور غیر قانونی اسلحہ

پنجاب میں غیر قانونی اسلحہ کے خلاف ایک مہم چلانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس مہم کے تحت عوام کو پندرہ دن کی مہلت دی گئی ہے کہ وہ اپنا غیر قانونی اسلحہ رضاکارانہ طور پر تھانوں میں جمع کروا دیں۔ ان کے خلاف کوئی قانونی کاروائی نہیں کی جائے گی۔

اس کے بعد ایک مہم شروع کی جائے گی۔ میں اس کے حق میں ہوں۔ غیر قانونی اسلحہ رکھنا ویسے بھی جرم ہے۔ اس کے خلاف ہر وقت مہم چلنی چاہیے۔ اس کی کبھی کسی بھی وقت اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

سوال تو قانونی اسلحہ کا ہے۔ ہر با اثر آدمی نے اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے اسلحہ کے بے تحاشہ لائسنس حاصل کر لیے ہوئے ہیں۔ اسلحہ کے لائسنس ماضی میں سیاسی رشوت کے طور پر بھی دیے جاتے رہے ہیں اور رشوت سے بھی ملتے رہے ہیں۔

آپ کو کتنے لائسنس چاہیے، مل جائیں گے۔ بس رشوت دیں، سارا کام ایجنٹ کرے گا۔ لائسنس گھر پہنچ جائے گا۔ ارکان اسمبلی بھی اپنے لوگوں میں لائسنس بانٹتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ ہر رکن قومی اسمبلی کا کوٹہ ہے۔ پنجاب میں بھی اسلحہ لائسنس کی لوٹ سیل رہی ہے۔ پنجاب سے بھی کوئی کم لائسنس جاری نہیں ہوئے ہیں۔

جب آپ کے پاس چند لائسنس آجاتے ہیں تو آپ چند بندوقیں اور پستول بغیر لائسنس کے بھی رکھ لیتے ہیں۔ اس لیے میری نظر میں قانونی اور غیر قانونی اسلحہ دونوں ہی خطرناک ہیں، دونوں کی ہی معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں۔

معاشرہ میں اسلحہ صرف حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس ہی ہونا چاہیے۔ عوام میں اسلحہ کی دوڑ امن وامان کے لیے کوئی خوش آیند نہیں۔ اگر ہم معاشرے کو اسلحہ سے پاک کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں قانونی اور غیر قانونی دونوں قسم کے اسلحہ ختم کرنے ہوں گے۔

یہ تو نہیں ہو سکتا کہ معاشرے کا ایک حصہ قانونی اسلحہ رکھ لے اور دوسرا نہ رکھ سکے۔ اسی لیے تو اسلحہ ضرورت سے زیادہ اسٹیٹس سمبل بن گیا ہے۔ لوگ اپنی اہمیت بتانے کے لیے بھی اسلحہ رکھتے ہیں۔

جب تک آپ کے ساتھ اسلحہ بردار لوگ نہ ہوں آپ اہم آدمی سمجھے ہی نہیں جا سکتے۔ لوگ پروٹوکول کے بھوکے ہیں اور اسلحہ کے بغیر پروٹوکول کی کوئی شان نہیں۔ اس لیے اگر معاشرہ سے اسلحہ ختم کرنا ہے تو غیر قانونی کے ساتھ ساتھ قانونی اسلحہ بھی ختم کرنا ہوگا۔

اسلحہ کے حوالے سے ایک قومی پالیسی کی ضرورت ہے۔ پنجاب میں اسلحہ لائسنس جاری کرنے پر تو پابندی لگا دی گئی ہے لیکن اسلام آباد سے جاری ہو رہے ہیں۔ ملک کے دیگر صوبوں سے جاری ہو رہے ہیں۔ اگر اسلحہ کی دوڑ ختم کرنی ہوگی تو پورے ملک سے ختم کرنی ہوگی۔

لیکن پہلے مرحلہ میں پنجاب کی بات کریں تو کم از کم اسلام آباد کو پورے ملک کے لیے اسلحہ لائسنس جاری کرنے بندکرنے ہوں گے۔ اسلام آباد کے پاس صرف اسلام آباد کے لیے اختیار ہونا چاہیے۔ کس صوبہ میں اسلحہ ہونا چاہیے یا نہیں ہونا چاہیے یہ معاملہ صوبے پر چھوڑ دیں۔

یہ بات میں اس لیے لکھ رہا ہوں کیونکہ کے پی کے لوگ اسلحہ کو اپنا زیور قرار دیتے ہیں۔ وہ اپنا زیور کے پی میں رکھیں‘ جب پنجاب آئیں اپنا زیور گھر چھوڑ کر آئیں، جب پنجاب آئیں تو اسلحہ کے بغیر آئیں۔

اسی طرح بلوچستان میں بھی اسلحہ کا ایک رواج نظر آتا ہے۔ وہاں سرداروں نے اپنی نجی ملیشیا بھی بنا رکھی ہے۔ اس لیے بلوچستان والے اپنا اسلحہ بلوچستان رکھ کر آئیں۔ پنجاب آئیں تو اپنی نجی ملیشیا اور اسلحہ نہ لائیں، انھیں یہاں لانے پر پابندی ہونی چاہیے۔ ان کے بچے یہاں بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں، ان کے پاس بھی گارڈ ہیں، وہ بھی ختم ہونا چاہیے۔

ان کے گھروں پر بھی بلوچستان سے آئے اسلحہ بردار گارڈ ہیں، وہ بھی ختم ہونا چاہیے۔ یہ بھی دہشت کی علامت ہیں۔ اس لیے ہمیں سب کو ختم کرنا ہوگا۔ اسلحہ نہ رکھنے کا قانون صرف پنجابیوں کے لیے تو نہیں ہو سکتا۔ باقی سب کو اجازت، پنجابیوں ہی کو پنجاب میں اسلحہ رکھنے کی اجازت نہیں۔ یہ تو کوئی انصاف نہیں۔

پنجاب کو ہر قسم کے اسلحہ سے پاک کرنا ہوگا۔ میں اس بات سے متفق ہوں کہ دشمنیوں کے جاری رہنے کی ایک وجہ اسلحہ بھی ہے۔ جب اسلحہ نہیں ہوگا تو دشمنیاں بھی نہیں چل سکیں گی۔ جب دونوں فریقین کے پاس اسلحہ نہیں ہوگا تو دونوں کو خطرہ نہیں ہوگا۔ میں سمجھ سکتا ہوں یہ ایک دن میں ممکن نہیں۔

اس لیے سب سے پہلے لاہور کو اسلحہ سے پاک شہر بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ لاہور میں کسی کے پاس کسی بھی قسم کا کوئی اسلحہ نہیں ہونا چاہیے۔ لاہور کو اسلحہ فری شہر قرار دینا چاہیے کہ یہاں کسی کے پاس کوئی اسلحہ نہیں ہوگا۔

اس ضمن میں اسلحہ ڈیلر کی دکانیں اور ان کے لائسنس بھی ختم کرنے ہوں گے۔ صوبہ بھر میں اسلحہ ڈیلر ہی قانونی اور غیر قانونی اسلحہ فراہم کرتے ہیں، گھر تک پہنچاتے ہیں، ان کے بغیر اسلحہ کی ڈیل ممکن نہیں۔ میں مانتا ہوں لوگ اسلحہ کے لیے قبائلی علاقوں میں جاتے تھے۔ لیکن اب یہ رواج ختم ہوگیا۔

کوئی پنجابی اب وہاں نہیں جاتا۔ ایک وقت تھا پنجاب کے لوگ باڑہ میں خریداری کرنے بھی جاتے تھے اب نہیں جاتے۔ اب ہر شہر میں خیبرپختونخوا کے لوگوں نے باڑہ بنا لیا ہے۔ اسی طرح اسلحہ کی ڈیلر شپ بھی حا صل کر لی ہیں، یہیں سے قانونی اور غیر قانونی اسلحہ ملتا ہے۔

اسمگل اسلحہ بھی ملتا ہے، امپورٹڈ اسلحہ بھی ملتا ہے۔ اس لیے جب تک اسلحہ ڈیلر موجود ہیں، اسلحہ کے خلاف کوئی بھی مہم کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اتنے زیادہ اسلحہ ڈیلروں کی کیا ضرورت ہے۔ ان کے بھی لائسنس منسوخ کرنے کا عمل شروع کرنا ہوگا۔

جہاں تک یہ بات ہے کہ اگر آپ کی دشمنیاں ہیں تو صلح کر لیں۔ اگر صلح نہیں کرنی تو دبئی چلے جائیں۔ میں سمجھتا ہوں ریاست یہ مشورہ نہیں دے سکتی کہ آپ ملک چھوڑ جائیں۔ ملک میں رہنے کا حق یکساں ہے۔ جتنا حق حکومت کے نمایندوں کے پاس ملک میں رہنے کا ہے اتنا ہی حق ملک میں رہنے کا سب کے پاس ہے۔ دشمنیوں کو قانون کے دائرے میں رہنا ہوگا۔

لوگوں کو تنازعات قانون کے دائرے میں حل کرنا ہوں گے۔ قانون کی عمل داری کو اگر یقینی بنایا جائے گا تو دشمنیاں خود بخود ختم ہو جائیں گی۔ یہاں عدالتیں فیصلے نہیں کرتیں، اسی لیے دشمنیاں بڑھتی ہیں۔

سی سی ڈی بھی تو اسی لیے بنائی گئی ہے کہ حکومت خود عدالتی نظام سے مایوس ہے۔ حکومت کو بھی یہی گلہ ہے مجرموں کو سزا نہیں ملتی۔ مجرم بڑی مشکل سے پکڑے جاتے ہیں اورعدالتیں چھوڑ دیتی ہیں۔ ضمانتیں ہو جاتی ہیں۔

لوگوں کو بھی یہی گلے ہیں۔ان کے مجرم چھوٹ جاتے ہیں۔ پھر ان کی جان کو خطرہ ہوجاتا ہے۔اس لیے جب تک انصاف نہیں ہوگا دشمنیاں کیسے ختم ہونگی۔ لوگ قانون سے نہیں ڈریں گے۔ صرف سی سی ڈی کا ڈر کافی نہیں۔ عدالتوں کا بھی خوف ہونا چاہیے۔ تب ہی یہ مہم کامیاب ہوگی۔

اپنا تبصرہ لکھیں