پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے سخت ترین معاشی مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ ایک طرف بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے، افراط زر میں اضافہ ہو رہا ہے، سود کی مد میں بڑی سے بڑی رقم نکلتی چلی جا رہی ہے، اسی دوران ترقیاتی کاموں کے لیے رقوم کی کمی واقع ہو رہی ہے۔
روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک وقت تھا 3 پاکستانی روپے کا ایک ڈالر دستیاب تھا، آج تقریبا 300 روپے کے قریب ہو چکا ہے۔ اب کئی سالوں سے موسمیاتی تبدیلی کا شکار ملک بن چکا ہے۔ گزشتہ دہائی میں 2010 کا سیلاب آیا، پھر 2022 کا ہولناک ترین سیلاب آیا تھا جس سے ابھی تک سنبھلنے نہ پائے تھے کہ 2025 کے سب سے بڑے تاریخی سیلاب نے آ لیا جس کے بارے میں مالیاتی ادارہ تسلیم کرتا ہے کہ سیلاب نے معاشی استحکام کو بری طرح متاثرکیا ہے۔
اب اس سیلاب نے دراصل خوراک کے اسٹاک سے لے کر اس کی پیداوار تک کو متاثر کیا ہے، اگرچہ حکومت نے خوراک کی پالیسی،گندم کی پالیسی اور دیگر اقدامات سے مالی سہارا دینے کی پالیسی اختیار کی ہے، لیکن ان تمام تر مشکل صورتحال کا ادراک کرنے کے باوجود عالمی ادارے نے مختلف شرائط سے مزین کر کے قرض کی پیش کش کی ہے۔
پاکستان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس مرتبہ گندم کی پیداوار میں تقریباً 8 فی صد کی کمی ہوگی، اگر ہم فرض کر لیتے ہیں کہ 30لاکھ ٹن گندم کی درآمد کی ضرورت پیش آئے گی، 2 برس قبل 30 لاکھ من گندم کی درآمد پر ایک ارب ڈالر خرچ کیا گیا تھا تو اس لحاظ سے تقریباً سوا ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی، یعنی جتنا قرض لیں گے اسی قدر گندم کی درآمد پر خرچ کر دیا جائے گا، لہٰذا خوراک کی قلت کا معاملہ پوری معیشت پر منفی اثرات مرتب کرے گا۔
حکومت نے گندم کی قیمت خرید کا تعین کر دیا ہے، اب ساتھ ہی کاشتکاروں کے دیگر مسائل کو فوری حل کرنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں بہت سے خاص مقامات ایسے ہیں جہاں پہلے گندم یا کسی اور فصل کی کاشت نہیں ہوئی ہے، لہٰذا وہاں پر گندم کی فصل اٹھائی جا سکتی ہے جس سے گندم کی کمی پر کچھ نہ کچھ قابو پایا جا سکتا ہے۔
آئی ایم ایف سے شرائط کے تحت جو رقم ملے گی، اس کے نتیجے میں خدشات بھی جنم لے رہے ہیں کیونکہ شرائط پر مکمل عمل درآمد اور اصلاحات نہ کی جا سکیں جس کے امکانات زیادہ ہیں ایسی صورت میں اگلی رقم رکے گی یا پھر بعد میں آئی ایم ایف کو اپنی مرضی کے مطابق نتائج کے حصول کے لیے مزید سخت ترین شرائط کا نفاذ کرنا پڑے گا۔
پاکستان کو اپنی اصلاح کے لیے خود سے منتخب کردہ کئی راستوں کا انتخاب کرنا ہوگا۔ مثلاً ملک میں غذائی پیداوارکا براہ راست 30 فی صد تک ضیاع ہوتا ہے جسے روکنا اس کے علاوہ بہت سے قطعہ زمین ایسے ہیں جو غیر پیداواری ہیں۔ اس پر قابو پانے کی صورت میں کچھ پیداوار بڑھ سکتی ہے، اگرچہ پاکستان کے لیے شرح افزائش 3 فی صد سے زائد کی توقع کی جا رہی ہے۔
اس قدر کم شرح افزائش وسطی و شمالی افریقہ اور افغانستان کی پاکستان سے قدرے کم ہے، اگر حکومت کچھ اصلاحات کو صحیح معنوں میں رائج کرتی ہے، ٹیکس نیٹ میں اضافے کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے بوجھ اشرافیہ پر ڈالے، توانائی کے شعبے کی اصلاح کرے اور سرکاری اداروں کی اصلاح کرتی ہے جس میں غیر ضروری مراعات، بجلی کی مفت تقسیم، پٹرول مفت دینا اورکئی باتیں شامل ہیں۔
اس کے علاوہ مختلف اداروں کے لیے لگژری گاڑیوں کی خرید کا سلسلہ بالکل ختم کرنا ہوگا۔ غذائی درآمدات پر سخت کنٹرول کر کے بھی ایک یا ڈیڑھ ارب ڈالر کی بچت ہو سکتی ہے۔ ملک میں دالوں کی پیداوار میں اضافے پر توجہ دی جائے۔
اس طرح کے کئی اقدامات ہیں جو حکومت اس لیے اپنائے تاکہ آئی ایم ایف کے اصلاحی پروگرام کا حصول ممکن ہو سکے۔ اس طرح شرح نمو میں بھی اضافہ ہوگا اور آیندہ کے لیے خدشات بھی کم ہو جائیں گے۔
کہا جا رہا ہے کہ پاکستان استحکام کی راہ پر ہے حالانکہ سیلاب کے اثرات نے پاکستان کی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کر دیے ہیں۔ پاکستان کو ان تمام علاقوں میں سرمایہ کاری یا ترقیاتی کام کرانے کی ضرورت ہوگی۔
سڑک ٹوٹنے، پل تباہ ہونے، موٹروے کے کئی حصوں کی تباہی کے علاوہ بہت سے بند ٹوٹے ہیں جن سے نہری نظام بھی ابتری کا شکار ہے۔ لاکھوں ایکڑ زمینوں پر پانی بھی کھڑا ہے، اس کے علاوہ کسانوں کے اپنے مالی مسائل شدید تر ہو چکے ہیں۔
ان تمام کو حل کیے بغیرکہہ دینا کہ پاکستان کی معیشت استحکام کی راہ پر ہے بلکہ ان سب کی اصلاح کے بغیر اگر اسی طرح چلتے رہے تو اگلے برس تک معیشت استحکام کی راہ چھوڑ کر غیر مستحکم ہونے لگے گی۔
حالانکہ استحکام کی صورت اختیارکرنے میں بھی ابھی بہت سا وقت اور بھاری رقم درکار ہیں، اس کے ساتھ ہی حکومتی مشینری کا فعال طریقے سے اور بھرپور تیزی سے کام کرنا بھی ضروری ہے۔
ابھی تک صوبہ سندھ بھی بہت سے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ سیلاب کی تباہی کے علاوہ 2022 میں آنے والے سیلاب کے اثرات ابھی تک موجود ہیں۔ صوبہ کے پی کے میں بھی بحالی کا کام مکمل نہیں ہوا ہے، جس کے مضر اثرات مرتب ہو چکے ہیں، لہٰذا پاکستان اب نئی مشکل ترین صورت حال میں گھرا ہوا ہے۔
آئی ایم ایف سے قرض کا حصول ایک جزوقتی سہارا ہے لیکن ایسا سہارا جس میں قرض کا بار بھی ہے اور شرائط پر عمل درآمد سے غریبوں کے لیے مشکلات بھی ہیں۔ اس کے علاوہ اہم مسئلہ غریبوں کی معاشی بحالی کا ہے جس کا فی الحال کسی قسم کا شافی نسخہ دریافت نہیں کیا جا سکا، اس کی وجہ یہ ہے کہ عرصہ دراز ہوا غریب مزید غریب ہو رہا ہے۔
حالیہ سیلاب نے اگر 50 لاکھ افراد کو متاثر کیا ہے تو وہیں ان میں سے قلیل تعداد میں دوبارہ مکمل طور پر فوری بحال ہوئے ہوں گے جب کہ اکثریت ابھی تک مسائل کا شکار ہیں اس لحاظ سے پہلے کی نسبت غربت کی شرح بھی بڑھ رہی ہے اور شرح ترقی میں کمی کے باعث سیلاب کے سبب گندم اور کپاس کی درآمد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے اور اس کے مضر اثرات برآمدات پر مرتب ہو رہے ہیں کیونکہ کپاس کی پیداوار میں شدید کمی نے ٹیکسٹائل کی برآمدات پر اثرات مرتب کر دیے ہیں۔
ایسی صورت میں جب کہ ٹیکسٹائل پیداوار کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ درآمدی کپاس مہنگی پڑ رہی ہے۔
پاکستان پہلے ہی کئی دہائیوں سے معاشی مشکلات میں گھرا ہوا ہے، موجودہ صورت حال نے اسے مزید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ آئی ایم ایف کو جس معاشی استحکام کی ضرورت ہے، اس کے حصول کے لیے پاکستان کو اپنے طور پر بہت سے اقدامات اٹھانے کی ضرورت پیش آئے گی تاکہ معاشی ترقی حاصل کی جا سکے اور معاشی استحکام کا حصول مزید آسان ہو جائے۔
