’’پاکستان اگرچہ ایک آئین اور باقاعدہ تعزیراتِ پاکستان کے تحت چلنے والا ملک ہے، لیکن یہاں ایسے سفاکانہ واقعات بار بار پیش آتے ہیں جو اس کے قانونی ڈھانچے کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ عمومی جرائم اور قتل وغارت گری عدالتوں میں زیرِ سماعت آتے ہیں، مگر ایک زیادہ خطرناک رجحان ملک کے عدالتی نظام کی رُوح کو چیلنج کر رہا ہے: غیر قانونی طور پر جرگہ کے ذریعے ہونے والی ہلاکتیں۔
یہ جرگے، جو مقامی بزرگوں پر مشتمل غیر رسمی اجتماعات ہوتے ہیں، روایات اور عزت کے محافظ سمجھے جاتے ہیں، مگر ان کے فیصلے نہ صرف ملکی قانون سے باہر بلکہ اخلاقیات سے بھی عاری ہوتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں دی جانے والی سزائیں اکثر انتہائی ظالمانہ اور ناقابلِ واپسی ہوتی ہیں۔
ایک مہذب معاشرے میں اس قسم کے اداروں کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستان میں یہ مسئلہ گہری جڑیں رکھنے والے قبائلی نظام، پدرشاہی سوچ اور کمزور سیکیورٹی صورتحال کے باعث مزید شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، خاص طور پر بلوچستان میں، جہاں متنوع خطرات ریاستی رِٹ کو مزید کمزور کر رہے ہیں‘‘۔
حقائق پر مبنی یہ تجزیاتی الفاظ ممتاز انگریزی لکھاری ، انس اے خان صاحب ،کے ہیں ۔ حالیہ ایام میں بلوچستان اور پنجاب میں جرگوں اور ان کے شرکت کنندگان نے سر کشی ، وحشت اور قانون کی پامالی کرتے ہُوئے جس طرح کئی خواتین و حضرات کو موت کے گھاٹ اُتارا ہے ، اِس پس منظر میں مذکورہ بالاالفاظ سماج کے صحیح تر عکاس ہیں۔
چند ہفتے قبل اطلاع آئی کہ بلوچستان کے علاقے ، ڈگاری، میں ایک جوڑے کو مقامی جرگے نے ، سرِ عام، گولیاں مار کر موت کی سزا دے دی ہے ۔ سزائے موت پر عملدر آمد میں مبینہ طور پر مقامی سردار اور لڑکی کے بھائی نے مرکزی کردار ادا کیا ۔ اگر سوشل میڈیا پر اِس وحشتناک منظر کی وسیع پیمانے پر تشہیر نہ ہوتی تو شائد اِس خونیں سانحہ کو دبا ہی دیا جاتا۔
بعد ازاں سوشل میڈیا کے زبردست دباؤ پر ہی بلوچستان کے وزیر اعلیٰ، سرفراز بگٹی ، کو پریس کانفرنس کرنا پڑی ۔ کہا جانا چاہیے کہ اِس پریس کانفرنس نے قاتل جرگے کے کیے گئے وحشیانہ فیصلے کی شدت کو کمزور کیا ۔ اور یہ کہ آیا یہ پریس کانفرنس مبینہ طور پر دراصل بلوچ قاتل جرگے کے مبینہ قاتل سردار اور لڑکی کے مبینہ قاتل بھائی کو بچانے کی ایک سعیِ ناکام تھی ؟
حقیقت یہ ہے کہ ڈگاری کے اِس خونیں سانحہ نے ملک بھر کو ہلا کر رکھ دیا۔ اِس فیصلے نے جہاں جرگوں کی وحشت و بربریت اور لاقانونیت کو ایک بار پھر عیاں کر دیا، وہیں یہ بھی منظر کھلا کہ ملک میں لاقانونیت بڑھتی جارہی ہے اور ملک جنگل بنتا جارہا ہے۔
بلوچستان جرگے میں غیرت کے نام پر قتل کا واقعہ، جسے سوشل میڈیا پر بذریعہ ویڈیو شیئر کیا گیا، نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ خوفناک بھی۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایسے عناصر کو نہ ریاست کا خوف ہے، نہ قانون کی پرواہ، اور نہ ہی معاشرے کی کوئی شرم وحیا۔ انھیں اپنے جرم پر فخر ہے۔
اگر ملک کے بعض حصے جنگل کے قانون کی شکل اختیار نہ کر گئے ہوتے اور ملکی قوانین کو ملک کے ہر حصے میں یکساں بالادستی حاصل ہوتی تو یہ واقعہ سرے سے پیش ہی نہ آتا۔ ایسے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ ریاستی عملداری کتنی کمزور ہو چکی ہے۔
اگر طاقتور ملزمان گرفتار بھی ہو جائیں تو عدالتوں میں انھیں وی آئی پی پروٹوکول ملتا ہے، جب کہ عام شہری عدالتوں میں رُل جاتے ہیں۔ بقول مذکورہ تجزیہ نگار: یہ دوہرا معیار اس بات کا ثبوت ہے کہ طاقتور افراد قانون سے بالاتر تصور کیے جاتے ہیں۔
مزید تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ ایسے کئی جرائم میڈیا تک نہیں پہنچ پاتے۔ جرگوں کا کردار نہایت خطرناک اور وحشتناک بن چکا ہے۔ یہ جرگے ظلم و ستم کو ’’ثقافت‘‘ کے نام پر جائز قرار دیتے ہیں، جب کہ ان کے فیصلے پاکستان کے آئین اور انسانی حقوق کے منافی ہوتے ہیں۔اگر پاکستان کو ایک منصفانہ اور شمولیتی معاشرہ بننا ہے تو اسے جرگوں اور پنچائتوں کے غیر منصفانہ متوازی نظاموں کا ہر صورت قلع قمع کرنا ہوگا۔
افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ بلوچستان کے قاتل جرگے کے افراد (بشمول مقامی بلوچ سردار) کو پولیس نے گرفتار کیا تو مقتول لڑکی کی والدہ نے آگے بڑھ کر مبینہ طور پر گواہی دی کہ ’’ میری بیٹی کا قتل بالکل جائز ہُوا ہے ۔وہ گھر سے بھاگ گئی تھی ، اس کی سزا یہی تھی ۔‘‘
اور یہ کہ ’’ ہمارے سردار نے لڑکی کا قتل نہیں کیا۔‘‘ ایسی بے حس اور بے شعور روایات کی موجودگی میں ، جہاں مقتولہ کی ماں مبینہ طور پر اپنی بیٹی کے خلاف شہادت دے رہی ہو، سماجی بہتری کا خواب کیسے دیکھا جا سکتا ہے؟
مگر جرگوں اور پنچائتوں کی من مرضیوں اور خلافِ قانون و آئین فیصلوں اور اقدامات کی شدید الفاظ میں مذمت اور اِن جرگوں کے خاتمے کے لیے مسلسل تگ و دَو کرتے رہنا ہوگا ۔کہا جانا چاہیے کہ اگر ہمارے قانون میں بلوچستان کے جرگے میں جوڑے کو قتل کرنے میں روکنے کی صلاحیت و استعداد ہوتی تو پھر پیر ودھائی (راولپنڈی) میں ایک اور جرگے کو اپنی ایک سترہ سالہ بیٹی اور بہو کو قتل کرنے کی جرأت و جسارت بھی نہ ہوتی۔
پیر ودھائی میں جولائی 2025ء کے وسط میں 17سالہ بچی کو جرگے نے موت کے گھاٹ اُتار دیا ۔ اب جرگے کے قاتل ارکان ، جنھوں نے اپنے تئیں قتل کی واردات پر پردہ ڈالنے کی بہت کوشش اور چالاکی بھی کی ، پولیس اور عدالت کے رُوبرو ہیں ۔ پیر ودھائی کا یہ تازہ سانحہ بھی اِس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ وطنِ عزیز میں اجتماعی طور پر ملکی قوانین کی گرفت کس قدر کمزور پڑ چکی ہے اور یہ کہ جرگوں کی سرکشیاں روز افزوں ہیں۔
حیرانی اور پریشانی کی بات یہ بھی ہے کہ اِن جرگوں میں زیادہ تر فیصلے خواتین اور بچیوں کے خلاف ہی کیے جارہے ہیں ۔ اِن وحشیانہ اقدامات سے ہماری خواتین میں احساسِ عدم تحفظ بڑھ رہا ہے۔ خاندانی عزتوں کے نام پر خواتین کو بھینٹ کیا جارہا ہے۔ مستند ڈیٹا کے مطابق ، رواں برس ملک بھر میں300سے زائد خواتین کو ’’آنر کلنگ‘‘ کے نام پر قتل کیا جا چکا ہے۔
انصاف سے کہئے کہ آیا اِن حقائق اور جرگوں کے لاتعداد مظالم کی موجودگی میں ہم اپنے ملک کو صحیح معنوں میں ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘‘کہہ سکتے ہیں؟ یہ خونریز سانحات اس لیے مسلسل معرضِ عمل میں آرہے ہیں کیونکہ ہمارا قانون ، قانونی ادارے اور عدالتیں کمزور پڑ چکی ہیں۔
چنانچہ ریاست کو چاہیے کہ وہ صرف شہروں ہی میں نہیں بلکہ دیہی علاقوں میں بھی قانونی اداروں کو مضبوط بنائے۔ حکومت کو عوام میں شعور بیدار کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ جرگہ جیسے غیر قانونی اداروں کو عوامی ذہنوں سے غیر قانونی اور غیر اخلاقی تسلیم کروایا جا سکے۔
سول سوسائٹی اور میڈیا کا کردار بھی اہم ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بھی جوابدہ بنایا جانا چاہیے۔ایک ایسا معاشرہ جو خوف، روایت یا پدرشاہی غرور کے تحت فیصلے کرتا ہے، وہ ترقی کا دعویدار نہیں ہو سکتا۔جب تک آئین اور قانون کی حکمرانی کے تحت ہر شہری کو منصفانہ، غیرجانبدار اور انسانی ہمدردی پر مبنی انصاف فراہم نہیں کیا جاتا ، کوئی شہری اپنے ملک پر فخر نہیں کر سکتا ۔