پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ہمیشہ پیچیدگیوں اور الجھنوں کا شکار رہے ہیں۔ ایک طرف مذہبی و ثقافتی رشتے ان کے درمیان قربت پیدا کرتے ہیں تو دوسری طرف سیاسی اختلافات، سرحدی جھڑپیں اور دہشت گردی ان رشتوں کو کمزور کر دیتی ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں طورخم اور چمن کے سرحدی مقامات پر ہونے والی جھڑپوں، سرحدی بندش اورکشیدگی نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ دونوں ملک کس سمت جا رہے ہیں؟
پاک سرحد بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ہے لیکن افغانستان کی ہر حکومت نے جان بوجھ کر اسے متنازعہ بنانے کی کوشش کی ہے ، اب طالبان حکومت بھی اسی راہ پر گامزن ہے۔ افغانستان کی حکومتیں اپنی داخلی ناکامی پر پردہ ڈالنے اور عالمی ذمے داریوں سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے سرحد کو متنازعہ بنا کر بار بار تصادم کو جنم دیتی آرہی ہے۔
پاکستان نے اپنی سلامتی کے پیشِ نظر اس سرحد پر باڑ لگائی تاکہ دہشت گردوں کو سرحد پار کرنے سے روکا جائے اور اسمگلنگ کے راستوں کی نگرانی کی جا سکے مگر طالبان انتظامیہ اس اقدام کو ناپسندیدہ قرار دیتے ہیں۔ دہشت گرد گروہوں کو ختم کرنے ، غیرقانونی نقل حرکت روکنے اور اسمگلنگ کا خاتمہ کرنے کے بجائے وہ سرحدی تنازعے کو ہوا دے کر حالات خراب کررہے ہیں۔
حالیہ مہینوں میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ان حملوں کی منصوبہ بندی اور تربیت افغانستان میں ہو رہی ہے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے دہشت گرد افغان سرحدی علاقوں میں موجود ہیں اور حملوں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں حاصل کیے ہوئے ہیں۔ پاکستان نے بارہا کابل حکومت کو سفارتی سطح پر آگاہ کیا ہے کہ اگر افغان سرزمین سے دہشت گردی کا سلسلہ بند نہ ہوا تو دونوں ممالک کے تعلقات مزید متاثر ہوں گے۔
طالبان حکومت ایک طرف تو دنیا سے تقاضا کر رہی ہے کہ اسے سفارتی طور پر تسلیم کیا جائے۔ دوسری طرف پاکستان جیسے قریبی ہمسایہ ملک کی سلامتی کے خدشات کو نظرانداز کر رہی ہے۔ یہ دوہرا رویہ خطے کے امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ اگر کابل انتظامیہ واقعی ایک ذمے دار ریاست بننا چاہتی ہے تو اسے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف واضح، غیر مبہم اور عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
پاکستان نے افغانستان کے لیے ہمیشہ تجارتی راہیں کھلی رکھی ہیں۔ کراچی اور گوادر کی بندرگاہیں افغانستان کی معیشت کی شہ رگ ہیں۔ مگر افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے پردے میں منشیات ، ہتھیاروں اور دیگر سامان کی اسمگلنگ نے پاکستان کی مقامی صنعت کو ہی شدید نقصان پہنچایا ہے بلکہ یہاں جرائم اور دہشت گردی کو بھی فروغ دیا ہے۔ پاکستان نے جب بھی سرحدی چیکنگ سخت کی یا بعض اشیاء پر پابندی لگائی تو کابل نے اسے ’’تجارتی پابندی‘‘ قرار دے کر جھوٹا پروپگنڈا شروع کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اپنی معاشی بقاء اور صنعتی تحفظ کے لیے ایسا کرنے پر مجبور ہوا۔
پاکستان کے لیے سب سے بڑی ترجیح اپنی داخلی سلامتی ہے۔ جب دہشت گرد گروہ افغان سرزمین سے حملے کریں گے تو پاکستان کے لیے تجارتی یا سفارتی نرمی برقرار رکھنا ممکن نہیں۔ یہ درست ہے کہ دونوں ممالک کی معیشتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں، لیکن دہشت گردی کے بادل اس رشتے کو غیرمتوازن بنا رہے ہیں۔ افغانستان کے استحکام کے بغیر پاکستان کا امن مکمل نہیں ہو سکتا لیکن افغانستان حکومت کا رویہ پاکستان کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔
اسلام آباد کی پالیسی اب زیادہ واضح اور اصولی ہوتی جا رہی ہے۔ افغانستان سے دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خاتمے کے لیے پاکستان نے دوٹوک موقف اپنانا ہے۔ ٹرانزٹ ٹریڈ کے نئے معاہدے میں جدید نگرانی، GPS ٹریکنگ اور کسٹم چیکنگ کے نظام کو لازمی بنانا ہے۔دہشت گردی کے عمل کو روکنے کے لیے افغان حکومت کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ بڑھانے کی شرط بھی شامل ہے۔
پاکستان اور افغانستان جغرافیائی اعتبار سے ایک دوسرے سے جدا نہیں رہ سکتے۔ اگر افغانستان دہشت گرد گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بنا رہے گا تو پاکستان کو اپنے قومی مفاد میں سخت فیصلے کرنے پڑیں گے۔ بارڈر کی بندش اور تجارتی رکاوٹیں وقتی طور پر تکلیف دہ ضرور ہیں لیکن قومی سلامتی کسی بھی طور پر اقتصادی اور تجارتی معاملات سے افضل نہیں ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ افغان قیادت ماضی کی غلطیوں سے سیکھے اور باہمی احترام، سیکیورٹی تعاون اور شفاف تجارت کی بنیاد پر آگے بڑھے ورنہ یہ بارڈر صرف سرحد نہیں، ایک مستقل خلیج اور تنازعات کا باعث رہے گا۔
