کاروباری برادری  کا قومی سمت پر اعتماد 4 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا

 حکومت کی اقتصادی اصلاحات کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے اور کاروباری برادری  کا قومی سمت پر اعتماد 4 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔

 پاکستان کے کاروباری اداروں کا ملک کی سمت کے بارے میں اعتماد 4 سالوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ اس کے علاوہ کاروباری اداروں کی ایک بڑی تعداد نے سابقہ حکومت کے مقابلے میں موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں پر اعتماد کا اظہارکیاہے۔

ملک میں مہنگائی، بڑھتے ہوئے توانائی اخراجات اور کاروباری آپریشنز چلانے میں لوڈ شیڈنگ جیسی مشکلات کے باوجود کاروباری اعتماد میں بہتری آئی ہے۔

گیلپ پاکستان کے حالیہ بزنس کانفیڈنس سروے کے مطابق ملک کی مجموعی سمت کے بارے میں کاروباری اداروں کے رائے میں نمایاں بہتری آئی ہے اور ملکی سمت کے کا اسکور 2024 کی آخری سہ ماہی سروے رپورٹ کے مقابلے میں ڈرامائی طورپر بہتر ہوکرمنفی 2 فیصد ہوگیا ہے۔

اگرچہ یہ اسکور اب بھی منفی ہے لیکن 2021 کی چوتھی سہ ماہی کے بعد اعتماد کی بلند ترین سطح پر ہے۔ سروے کے مطابق کاروباری اعتماد میں اضافہ کاروباری اداروں کے نقطہ نظر سے سیاسی و اقتصادی غیر یقینی صورتحال میں بہتری کو ظاہر کرتا ہے اورمعیشت کے بارے میں موجودہ حکومت کی صلاحیت میں مثبت تاثر رکھنے والے کاروباری اداروں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

سروے کے مطابق 46 فیصد کاروباری اداروں نے پاکستان تحریکِ انصاف کے مقابلے میں موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں پر اعتماد کا اظہار کیا ہے جبکہ ایک سال پہلے یہ شرح 24 فیصد تھی، گزشتہ سروے کے مقابلے میں 6 فیصد بہتری کے ساتھ ہے۔

سروے میں شریک ہونے والے 61 فیصد شرکا نے موجودہ کاروباری آپریشنز کو اچھا یا بہت اچھا قراردیا ہے اور اعتراف کیا کہ خدمات اور تجارتی شعبوں میں نمایاں بہتری آئی ہے۔

مینوفیکچرنگ سیکٹر میں بحالی کی رفتار نسبتاًسست ہےمستقبل کے بارے میں 61 فیصد شرکاء پُر امید ہیں تاہم یہ اعتماد گزشتہ سروے کے مقابلے میں صرف ایک پوائنٹ بہتر ہوا ہے جو اس بات کی عکاسی ہے کہ اگرچہ کاروباری اداروں کو حالات خراب ہونے کا خدشہ نہیں ہے لیکن بہتری کی رفتار بھی بہت سست ہے۔

کاروباری اداروں کو درپیش چیلنجز کے بارے میں سوال کے جواب میں شرکا نے مہنگائی، توانائی اخراجات میں اضافہ اور ٹیکسز بدستوراہم مسائل قراردیا ہے۔

سروے کے مطابق 28 فیصد شرکاء نے مہنگائی، 18 فیصد نے مہنگے یوٹیلٹی بلزاور 11فیصد نے ٹیکسز کو سب سے اہم مسئلہ بتایا ہے جبکہ 47 فیصد شرکاء نے لوڈشیڈنگ کی تصدیق کی ہے جوکہ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں کچھ کم ہے۔

یہ اس بات کا اظہار ہے کہ ملک کے کاروباری شعبے میں اسٹرکچرل چیلنجز اب بھی موجود ہیں سروے میں قابلِ ذکر مثبت پہلو رشوت کی شکایات میں کمی ہے اور 2024 کی آخری سہہ ماہی کے 34 فیصد شرکاء کے مقابلے میں صرف 15 فیصد شرکاء نے گزشتہ 6 ماہ میں رشوت دینے کا اعتراف کیا ہے۔

اس کے علاوہ 20فیصد تاجروں، 13فیصد سروس سیکٹر اور 12 فیصد مینوفیکچرنگ سیکٹرز کے شرکاء نے رشوت دینے کا اعتراف کیا ہے۔  

مجموعی طورپر سروے میں قومی سمت اور موجودہ کاورباری صورتحال پر کاروباری اداروں کے تاثرات میں بہتری آئی ہے تاہم مستقبل کے حوالے سے کاروباری اداروں کے اعتماد میں کمی آئی ہے اور مہنگائی، توانائی اخراجات میں اضافہ اور گورننس جیسے چیلنجز ملک کے کاروباری ماحول میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔

گیلپ پاکستان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بلال اعجاز گیلانی نے سروے کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ سروے ملک کے کاروباری اداروں کے اعتماد میں محدود سطح پر بہتری کی طرف اشارہ ہے اور کاروباری اسٹیک ہولڈرز میں استحکام کی عکاسی ہے۔

بلال اعجاز گیلانی نے کہاسب سے نمایاں تبدیلی ملکی سمت بارے میں مثبت تاثر اورحکومتی معاشی پالیسیوں پراعتماد میں اضافہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس رجحان کو برقرار رکھنے کا انحصار میکرواکنامک اصلاحات، پالیسیوں میں تسلسل اور ادارہ جاتی کارکردگی میں بہتری پر ہے۔

گیلپ پاکستان کی بزنس کانفیڈنس انڈیکس 2025کی دوسری سہ ماہی کے سروے کا انعقاد 23سے 27جولائی کے دوران مینوفیکچرنگ، خدمات اور تجارتی شعبوں میں پاکستان کے 524 کاروباری اداروں کے درمیان کیا گیا تھا۔

یہ سروے موجودہ کاروباری صورتحال، حکومت معاشی مینجمنٹ اور مستقبل قریب کے بارے میں کاروباری اداروں کی آراء کی عکاسی ہےگیلپ کا بزنس کانفیڈنس انڈیکس دنیا بھر میں پالیسی سازوں کیلئے ایک اہم اشاریہ ہے جو کسی ملک کے کاروباری اداروں کی رائے جاننے کا اہم ذریعہ سمجھا جاتاہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں