کچھ دنوں سے ہم محسوس کررہے تھے کہ ہمارے کانوں کی ’’ان کمنگ‘‘ کچھ کم ہورہی ہے ویسے تو یہ کوئی تشویش کی نہیں بلکہ خوشی کی بات تھی کیونکہ اس وقت ملک میں ’’شورپولیشن‘‘ چل رہا ہے یعنی’’صدائی آلودگی‘‘ مسلط ہے۔
اس میں صرف ’’بہرے‘‘ کی عافیت ہے لیکن یہ بھی گوارا نہیں تھا کہ پھر لوگ خاص طور پر اپنے گھر والے اور شاعر وادیب ہمارے سامنے ہماری غیبت کریں گے اور ہم مسکرا مسکرا کر ہنسیں گے بلکہ نہیں ہنسیں گے۔چنانچہ اسپتال جانے کی ٹھانی، اسپتال جانے کا ایک محرک ہمارے مشاعرے برپا کرنے والے،تقریبات منعقد کرنے والے ہر وقت اپنا تازہ کلام سنانے والے بھی تھے۔معلوم ہوا کہ اس وقت’’کمپلیکس‘‘ میں علاج معالجے کی سہولتیں زیادہ ہیں۔
میڈیکل کمپلیکس کا یہ نام بالکل ہی حسب حال ہے کیونکہ ہم نے اس اسپتال کو ہر لحاظ سے ایک ’’کمپلیکس‘‘ ہی پایا جس کاآسان اردو میں ترجمہ ’’بھول بھلیاں‘‘کیا جاسکتا ہے۔کیونکہ گاڑی کو کمپلیکس یعنی ’’بھول بھلیاں‘‘ سے آدھے کلومیٹر دور کھڑی کرکے جب ہانپتے کانپتے پھولی سانس کے ساتھ دروازے پر پہنچے تو بقول منیر نیازی
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
دروازے سے اصل بھول بھلیاں شروع ہوئیں ہم ای این ٹی کا پتہ پوچھتے ہوئے چلے تو چلتے رہے ادھر ادھر مڑتے ہوئے۔کئی مقامات پر غلط کاریڈور میں بھی مڑجاتے اور کافی چلنے کے بعد واپس ہوتے رہے، پہلے ٹانگوں نے جواب دیا پھر سانس نے اور آخرمیں حوصلے نے۔تو ایک جگہ بیٹھ جاتے سانس بحال ہوجاتی تو پھر چل پڑتے تین چار مقامات پر سانس بحال کرتے، پھولی ہوئی سانس اور گھسیٹتی ہوئی ٹانگوں کے ساتھ ناک کان اور گلے کی انتظارگاہ پہنچے،تو ایک کرسی میں بیٹھنے سے پہلے گر پڑے۔آگے کیا ہوا وہ بتانے کے لائق نہیں اس لیے چھوڑ دیتے ہیں اور بھول بھلیوں کا پیچھا کرتے ہیں، اس وقت عوام و خواص میںدو مشہور بھول بھلیوں کا ذکر آتا ہے۔
ایک یونانی اساطیر میں’’مینو ثور‘‘ کی بھول بھلیاں اور دوسری پشاور میں مشہور’’محبوبہ جلات‘‘ کی بھول بھلیاں اور تیسری یقیناٰ اس کمپلیکس کے انجینئروں کی بنائی ہوئی یہ نئی بھول بھلیاں۔لفظ’’مینو ثور‘‘ کے معنی ہیں ’’آدمی بیل‘‘ یا بیل آدمی۔کہانی کے مطابق کریٹ کے بادشاہ منہاس کی بیوی پر دیوتا ’’زیوس‘‘ عاشق ہوگیا اور اس نے ایک ’’بیل‘‘ کی شکل میں اس سے ملاقات کی تو نتیجہ مینوثور کی شکل میں نکلا جس کا دھڑ بیل کا اور سر انسان کا تھا۔منہاس نہایت پیچیدہ بھول بھلیوں میں سیگزرا، وہ آدم خور بھی تھا۔اور ان دنوں یونان بھی اس کا باج گزار تھا اس لیے یونان سے بھی خراج میں انسان وصول کیے جاتے تھے جو مینوثور کی خوراک بنتے تھے۔
آخر یونان کے ایک شہزادے’’تھی سی ایس‘‘ نے خود کو ان آدمیوں میں شامل کروایا کریٹ پہنچ کر اس نے بادشاہ کی بیٹی ’’اہرادنے‘‘ کو پرم کے جال میں پھنسایا اہرادنے بھول بھلیاں میں ایک دھاگا پھیلایا جو مینوثور تک پہنچتا تھا، شہزادے نے اس دھاگے کی مدد سے جاکر مینوثور کو مارڈالا۔ہوبہو یہی کہانی یہاں پشاور کے بارے میں بھی مشہور ہے۔لیکن اس میں مینوثور کے بجائے بادشاہ کی بیٹی ’’محبوبا‘‘ کو بھول بھلیوں کے اندر رکھا گیا۔اس بادشاہ نامسلم کی بیٹی پیدا ہوئی۔
اولاد ہونے کی وجہ سے مار بھی نہیں سکتا تھا اور بیٹی کا باپ کہلانا بھی اسے پسند نہیں تھا چنانچہ اس نے پیچیدہ بھول بھلیاں زیرزمین بنوا کر شہزادی کو وہاں رکھا۔لیکن لاکھ چھپانے پر بھی یہ راز پھیل گیا۔اور پڑوسی بادشاہ کے بیٹوں تک پہنچا تو وہ یکے بعد دیگرے جان سے ہاتھ دھوتے گئے کیونکہ بادشاہ نے شرط رکھی تھی کہ اگر کسی نے شہزادی کو ڈھونڈا تو وہ اس سے بیاہی جائے گی اور نہ ڈھونڈا تو اس کا سرقلم کردیا جائے گا، اس طرح چھ شہزادے ناکام ہوکر مارے گئے لیکن ان کا چھوٹا بھائی ’’جلات‘‘ جب اس مہم پر نکلا تو کامیاب ہوگیا کیونکہ اس نے براہ راست نقارہ بجانے کے بجائے پہلے معلومات حاصل کرنا شروع کردی۔
آخر اسے ’’ممندے‘‘نام کے ایک سنار کا پتہ چلا جو محبوبا کے لیے زیور بناتا تھا اور اس کی ماں کا بھول بھلیوں میں آنا جانا تھا۔وہ ممندی زرگر کا شاگرد بن گیا اور اپنی تابعداری وفاداری اور خدمت سے ممندے اور اس کی ماں کا دل جیت لیا۔اور پھر جب اچھی طرح ان کا اعتماد حاصل کیا تو اپنا راز بتایا۔ یوں وہ محبوبا تک پہنچا یہاں بھی دھاگا کام آیا۔یہ کہانی شعرا نے منظوم کتابوں میں لکھی ہے اور لوگوں کا اس پر اتنا یقین ہے کہ اکثر لوگ اب بھی یہ کہتے ہیں کہ محبوبا کا وہ تہہ خانہ اب بھی پشاور کے آس پاس زیرزمین موجود ہے۔
میڈیکل کمپلیکس کی عمارت بنانے والے انجینئروںنے شاید یہ کہانی سنی تھی، محبوبا کا اصل قلعہ تو معلوم نہیں ہے اس لیے انھوں سوچا کہ محبوبا کا وہ زیرزمین قلعہ برسرزمین کیوں نہ لایا جائے، اس لیے کمپلیکس عرف بھول بھلیاں تعمیر کیا۔جس میں ہم ہر قدم ہر موڑ پر بھٹکتے ہوئے پہنچ تو گئے لیکن محبوبا کا پتہ نہیں چلا کیونکہ اس کے اندر سفید لباس میں ملبوس محبوبائیں اتنی زیادہ تھیں کہ انتخاب بھی بھول بھلیاں ہوگیا تھا۔
بعد میں ہمیں یہ بھی پتہ چلا کہ ممندے زرگر اور اس کی ماں بھی یہاں موجود ہیں۔وہیل چیئر اور ان کے چلانے والے۔لیکن یہ بات صرف وہ لوگ جانتے تھے جو آخری شہزادے کی طرح ذہین ہوں اور کرسی چلانے والے ممندیوں اور ان کی ماں وہیل چیئر کا دل جیت سکتے ہوں۔
