’’نو سال قبل میں اس وقت بیوہ ہوئی تھی جب میرے پاس چار بچے تھے، میری اپنی عمر تیس برس کے لگ بھگ تھی، میرے شوہر دفتر جاتے ہوئے کسی گاڑی کی ٹکر سے ہلاک ہو گئے اور مجھ پرگویا آسمان آن گرا۔ میرے بچوں کی عمریں بالترتیب دس، آٹھ ، چھ اور چار برس کی تھیں، دو بیٹیاں اور دو بیٹے۔ کوئی جمع پونجی تھی نہ کوئی بچت اور نہ ہی سرچھپانے کو اپنی کوئی چھت۔
میرے میکے اور سسرال میں بھی مشکلات کے انبار تھے، کسی کی طرف سے بھی مدد کی توقع عبث تھی۔ رشتہ دار بھی چار دن ہمدردی دکھا کر غائب ہو گئے۔کوئی کہتا کہ بیت المال سے زکوۃ فنڈ سے اپنے لیے ماہانہ وظیفہ لگوا لیں ۔ میری عدت تمام ہوئی، میرے زیورات اس دوران گھر چلانے،کرایہ دینے اور بچوں کی اسکول کی فیس دینے میں اٹھ گئے۔ میرے بچے ایک عام سے نجی اسکول میں پڑھتے تھے مگر وہاں بھی فیس میرے حساب سے اور میرے حالات سے زیادہ تھی۔
کچھ متمول لوگوں سے اور کچھ اور جاننے والوں سے درخواست کی کہ وہ اپنی اس سال کی زکوۃ میں سے میری مدد کردیں۔ تھوڑی رقم جمع ہوئی تو میں نے انتہائی چھوٹے پیمانے پر کھانا پکانے کا کام شروع کیا۔ سینہ بہ سینہ میں نے پبلسٹی کی۔ محلے میں اور جاننے والوں میں جب کسی کے ہاں کوئی تقریب ہوتی تو میں ان کے گھر جا کر ان کی پارٹی کا کھانا پکا دیتی، معمول میں، میں نے چھوٹے پیمانے پر اسکولوں کی کنٹین پر اوردفاتر میںلنچ باکس سپلائی کرنا شروع کیے۔ میں راتوں کو تنہا رو رو کر اور گڑگڑا کر دعائیں مانگتی تھی کہ اللہ تعالی میرے لیے آسانیاں کرے۔
چند سال کا عرصہ گزرنے پر بچے کسی نہ کسی طرح کام میں میری مدد کرنے لگے، اتنی محنت کرنے کے باوجود بھی اتنا بھی حاصل نہیں ہوتا تھا کہ گھر میں رزق کی فراوانی ہوتی۔ ہر ماہ باقاعدگی سے گھر کا کرایہ دیا جا سکتا یا بچوں کی ساری ضروریات پوری کی جاسکتیں۔
کچھ متمول جاننے والے اس کے بعد بھی اپنی زکوۃ سے میری مدد کر دیا کرتے تھے۔ کام ذرا بڑھ گیا تو رقوم کی وصولی کے لیے میں نے بینک میں اکاؤنٹ کھلوا لیا، اسی میں لوگوں کی ادائیگیاں بھی آتیں اور جو لوگ اب تک زکوۃ دیتے ہیں، وہ بھی مجھے اسی اکاؤنٹ میں بھجواتے ہیں۔
بینک میں اکاؤنٹ کھلوانا کون سا آسان کام ہے، آپ کو اپنا ذریعہ آمدنی بتانا پڑتا ہے، میںنے بھی کچھ تو لکھنا تھا تو لکھ دیا کہ کیٹرنگ کا کاروبار ہے۔ کاروبار کیسا ہے… آمدن کتنی ہے اور کیسے سر ڈھانپو تو پاؤں اور پاؤں ڈھانپو تو سر کھلتا ہے ۔
سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا جب تک کہ مجھے ایک خط نہیں آیا کہ آپ اپنے کاروبار کی تمام تحریری تفصیلات اور اپنے ٹیکس کے گوشوارے جمع کروائیں۔ مجھے کیا علم کہ یہ ٹیکس کے گوشوارے کیا بلا ہے اور میرے کاروبار کی کیا تفصیلات ہیں جو میں تحریری طور پر پیش کروں ۔ کوئی فون کر کے کہہ دیتا ہے، ایک مرغی کی کڑاہی اور چنوں والے چاول بنا دیں، میں بنا کر اپنا خرچہ نکال کر اس پر اپنا ذرا سا منافع لگاتی ہوں، اتنا ہی کہ جتنا کوئی عورت اس کڑاکے کی گرمی میں کام کے بدلے مطالبہ کر سکتی ہے۔
رائیڈر بلا کر میں کھانا پیک کر کے بھجواتی ہوں، رائیڈر کو بھی پیسے ادا کرتی ہوں اور میرا عوضانہ میرے اکاؤنٹ میں آجاتا ہے۔ جو آتا ہے، اسی روز خرچ ہو جاتا ہے۔ سودا سلف بھی لانا ہوتا ہے اور بچوں کے اخراجات کے ساتھ کرایہ، پانی، گیس اور بجلی کے بل بھے ادا کرتی ہوں ۔ اس کے بعد کیا اکاؤنٹ اور کاروبار کی تفصیلات اور کیا ٹیکس کا گوشوارہ؟؟
’’ ہمیں بتائیں کہ جن حالات میں، میںاور میرے بچے بے آسرا ہوئے تھے، ان حالات میں کون تھا جس نے ہماری بے مانگے مدد کی ہو۔ حکومت نے میرے لیے کیا کیا جو اب میں انھیں ٹیکس دوں؟ کیا کما لیا میں نے، کیا شراکت داری کی کسی حکومت یا کسی حکومتی ادارے نے کہ میں اپنے پیروں پر کھڑی ہو جاتی۔ عام کھانا پکانا ہی واحد ہنر تھا جو کہ میرے ہاتھ میں تھا۔
حکومت کو چاہیے کہ ہم جو چھوٹے چھوٹے اپنی مدد آپ کے تحت کاروبار چلا رہے ہیں جن کے منافع سے ہم بیرون ممالک جائیدادیں خرید سکتے ہیں اور نہ ہی ہمارا معیار زندگی غربت کی سطح سے اوپر آنے والا ہے… کم از کم ہمیںمعاف رکھیں ۔‘‘ یہ کہانی کسی ایک غریب عورت کی نہیں ہے بلکہ ملک کے ہر اس عام آدمی کی ہے جو کہ محنت اور مشقت کر کے بھی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہے ، بلکہ زندگی اسے گزار رہی ہے۔