نام۔ امن کانفرنس
مقام ۔باچاخان مرکز پشاور
خبریں تو آپ نے پڑھ لی ہوں گی کانفرنس واقعی بڑی کانفرنس تھی کیونکہ اس میں ہر مکتبہ فکر اور ہر سیاسی پارٹی کی نمایندگی تھی اور صوبے کی اہم شخصیات نے حصہ لیا تھا۔کانفرنس کی فوری وجہ تو مولانا خان زیب کی المناک شہادت تھی جو مفتی منیرشاکر کی طرح عوام میں بے حد مقبول تھے اور مروجہ ملائیت یا سیاسی اسلام کے نکتہ چین تھے۔لیکن اس فوری وجہ کے ساتھ ساتھ اصل وجہ وہ مستقل بدامنی،خونریزی اور قتل و قتال تھی،جو (45) سال سے اس خطے پر اپنا منحوس سایہ پھیلائے ہوئے ہے اور کم ہونے کے بجائے مزید پھیلتا جارہا ہے جسے مخصوص میڈیا نے دہشت گردی کا نام دے رکھا ہے اور ایسا کوئی اس خطے میں کم ہی ملے گا جس پر اس سوکال دہشت گردی کا سایہ نہ پڑا ہو اور اب تو حالت یہ ہوگئی ہے کہ
مشکل ہے کہ اب شہر میں نکلے کوئی گھر سے
دستار پہ بات آگئی ہوتی ہوئی سر سے
میڈیا نے تو اسے ’’دہشت گردی‘‘کا نام دے کر مسلمانوں کی ’’دُم‘‘ سے باندھا ہوا ہے لیکن حقیقت کچھ اور ہے، اصل ذمے داروں نے اس کے گرد اتنے پردے تانے ہوئے ہے کہ ساری دنیا دھوکا کھاگئی ہے اور کھا رہی ہے، منجھا ہوا تجربہ کار مجرم ہمیشہ ایسا ہی کرتا ہے اور یہاں تو کمال کی انتہا ہوگئی ہے کہ خود مقتول ہی کو اپنا قاتل ثابت کیا جارہا ہے اور جرم کو بلوہ قرار دیا ہے۔نہ تو یہ دہشت گردی ہے نہ فساد نہ سیاست نہ کچھ اور۔بلکہ صاف صاف صنعت و تجارت ہے جو عالمی سطح پر ہورہی ہے،کمرشلائزیشن اینڈ انڈسٹریلائزیشن ان گلوبلائزیشن۔اور یہ کوئی ہوائی نہیں ہے بلکہ ابھی ابھی اسے ثابت بھی کیے دیتا ہوں۔
دنیا میں تحقیق و تفتیش کا یہ بنیادی اصول رہا ہے کہ جب کوئی جرم ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس کا’’موٹیو‘‘ یعنی محرک تلاش کیا جاتا ہے کہ اس جرم سے کس کو فائدہ پہنچنا ہے یا پہنچے گا،مثال کے طور پر‘‘قتل‘‘ کے کسی جرم کو لے لیجیے اور یہ سوکال دہشت گردی بھی انسانیت کا قتل ہی تو ہے۔
اب مخصوص اور روایتی میڈیا نے تو اس جرم کو دہشت گردی کا نام دے کر’’مسلمانوں‘‘ کے نام کیا ہوا ہے۔ لیکن تحقیق وتفتیش کے اس بنیادی اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو مسلمانوں کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہورہا ہے بلکہ ہر ہر طرف اور ہر ہر لحاظ سے نقصان ہی نقصان پہنچ رہا ہے۔ مجموعی طور نہ مسلمانوں کو کوئی فائدہ ہورہا ہے نہ اسلام کو اور نہ اسلامی ممالک کو تو پھر مسلمانوں کو کس منطق کس دلیل اور کس شہادت کی بنیاد پر اس کا ذمے دار ٹھہرایا جاسکتا ہے؟۔یہ تو ایسا ہے جیسے کسی مقتول کو اپنے قتل کا ملزم ٹھہرایا جائے کسی کو اپنے ہی گھر کو جلانے کا ذمے دار ٹھہرایا جائے۔
اس لیے کہ اس کے پیچھے بھی ’’کوئی اور‘‘ ہے اس دنیا کے لوگوں کا خیال ہے کہ اسرائیل امریکا کا ’’بغل بچہ‘‘ ہے لیکن اصل بات اس کے بالکل الٹ ہے، امریکا خود اسرائیل کا بغل بچہ ہے۔چلیے اسرائیلی ریاست کا نہ سہی لیکن یہودیوں کا ’’اسیر‘‘ ہے۔اس وقت کوئی کچھ بھی کہے۔دنیا کا اصلی’’سپرپاور‘‘ امریکا نہیں یہودی’’ مالی مافیا‘‘ہے۔اعداد وشمار کے مطابق اس وقت ساری دنیا کی ساری دولت کا(68) فیصد یہودی مالی مافیا کے قبضے میں ہے، دنیا کی ساری بڑی بڑی کمپنیاں اور انڈسٹریاں ان کی زنجیر میں پروئی ہوئی ہیں اس عالمی یہودی مافیا کو کسی نے نیگسٹر کی طرز پر ’’نیکسٹرز‘‘ کا نام دیا ہے جو نہایت ہی حسب حال اور موزوں نام ہے اور امریکا جو بظاہر آزاد ہے اس کا اسیر ہے بلکہ ان کا ’’سیلز مینجر‘‘ ہے۔
یہ مافیا صرف ساری دنیا کی دولت ہی کا نہیں بلکہ دنیا کے سارے میڈیا کا (96) فیصد بھی اس کے قبضے میں ہے اور باقی(4) فیصد میں اشتہاری کمپنیوں کے ذریعے اس نے نکیل ڈالی ہوئی ہے۔آپ دیکھیں تو ایسی کمپنیوں اور پراڈکس کے اشتہار بھی لگاتار آرہے ہیں جن کو پبلسٹی کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی اور یہ صرف اس لیے کہ میڈیا ’’قابو‘‘ میں رہے اور دنیا میں’’ہتھیارسازی‘‘ کی صنعت تقریباً ’’سوفیصد‘‘ پر یہی یہودی’’عالمی مافیا‘‘ کی اجارہ داری ہے۔اس صنعت میں دنیا کی سب سے بڑی بڑی کمپنیاں شامل ہیں، سافٹ ڈرنکس کی معروف کمپنیاں، جان بچانے والی دواؤں کی کمپنیاں دنیا بھر میں انسانیت کی خدمت کرنے والی کمپنیاں۔بڑی بڑی مخیر کمپنیاں مطلب یہ کہ ایک طرف ’’جان لیوا‘‘ ہتھیار اور ان ہتھیاروں میں اب صرف پستول بندوق نہیں بلکہ توپیں ٹینکیں ہوائی جہاز، میزائل راکٹ بارودی سرنگیں ہر قسم کے بم اور تباہ کار آلات شامل ہیں۔اور یہ تو ظاہر سی بات ہے کہ یہ سارے ہتھیار نہ تو کھانے کے کام آتے ہیں نہ پینے کے نہ اوڑھنے کے،نہ پہننے کے مطلب یہ کہ یہ سب کے سب ہتھیار صرف ایک ہی’’کام‘‘ آتے ہیں۔اور وہ ہے جان لینا۔اب یورپ، امریکا، برطانیہ، کینیڈا، چین،جاپان والے تو اتنے سمجھ دار ہوچکے ہیں کہ وہاں ان ہتھیاروں کی کھپت کوئی نہیں ہے۔اور صرف مسلمان ممالک ہی ایسے ممالک ہیں جہاں ان ہتھیاروں کی کھپت ہے اور مسلمان ممالک ہی ان ہتھیاروں کی مارکیٹ ہوسکتے ہیں،ہیں اور رہیں گے اور مسلمان ہی وہ جذباتی لوگ ہیں جنھیں بہت آسانی سے ’’گرم‘‘ کرکے لڑایا جاسکتا ہے۔
وہ ایک افیمی نے دکاندار سے دو پیسے کی افیون مانگی تو دکاندار نے کہا کہ دو پیسے کی افیون سے کیا نشہ ہوگا۔تو افیمی نے کہا کہ ’’نشہ‘‘ میرے سر میں اپنا بہت ہے صرف ایک’’دھکے‘‘ کی ضرورت ہے۔وہ سلسلہ یہاں بھی ہے کہ نشہ تو مسلمانوں کے سر میں پہلے سے بہت ہے صرف ایک دھکے کی ضرورت ہے اور وہ ’’دھکا‘‘ دینے کا بندوبست بھی موجود ہے۔ دیکھیے تو یہ سوکال دہشت گردی یا جہاد یا طالبان وغیرہ صرف مسلمان ملکوں میں سرگرم ہیں،نہ یورپ میں نہ امریکا میں نہ آسٹریلیا نہ روس میں نہ چین و جاپان میں۔ان تمام دلائل و شواہد سے ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ نام نہاد دہشت گردی نہ دہشت گردی ہے نہ جہاد ہے نہ ہی سیاست ہے بلکہ خالص تجارت و صنعت ہے۔
ذرا تھوڑی دیر کے لیے فرض کریں کہ اگر آج یہ دہشت گردی ختم ہوجائے تو ہتھیاروں کی سب سے بڑی صنعت وتجارت والے اپنا’’مال‘‘ کہاں بیچیں گے، کیا اپنے کارخانے بند کریں گے؟ اپنا مال دریا برد کریں گے؟یا انھیں پگھلا کر کچھ اور بنائیں گے؟۔ان کا فائدہ اسی میں ہے کہ دنیا میں ان کی مارکیٹ چلتی رہے وسیع ہوتی رہے دن دونی رات چوگنی ترقی کرتی رہے۔اصل حقیقت یہی ہے باقی سب’’مایا‘‘ ہے۔ واردات کا اصل مجرم سامنے ہے یعنی گلابلائزیشن کا کمرشلائزیشن اور انڈسٹریلائزیشن ہے۔