فرسودہ نظام سے چھٹکارا – ایکسپریس اردو

بلوچستان سے ایک بار پھر وہ لرزہ خیز خبر آئی ہے جس نے ہر باشعور اور حساس دل رکھنے والے انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ایک مرد اور عورت، جنھوں نے اپنی مرضی سے شادی کی، قبائلی روایات اور نام نہاد غیرت کے نام پر بے رحمی اور درندگی سے قتل کردیے گئے۔ سوشل میڈیا پرگردش کرتی وڈیوز میں اس بہیمانہ جرم کی تصویرکشی کی گئی ہے۔ یہ وڈیوز پوری دنیا میں دیکھی جا رہی ہیں۔

 یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ بلوچستان، خیبر پختون خوا، دیہی سندھ اورجنوبی پنجاب کے قبائلی و نیم قبائلی علاقوں میں ایسے واقعات تواتر سے پیش آرہے ہیں، خواتین اور معصوم بچوں کے ساتھ ایسے ایسے مظالم اور درندگی کی خبریں آتی ہیں کہ روح کانپ جاتی ہے۔ لیکن پاکستان کا سسٹم ایسے بھیانک اور بہیمانہ جرائم کے منابع بند کرنے میں مسلسل ناکام چلاآرہا ہے۔

ہتھیار بند جھتے ڈبل کیبن ڈالوں اورکروڑوں روپے مالیت کی ایس یو ویز پر بیٹھے دندناتے پھر رہے ہیں،آئین و قانون اور سر کاری ادارے خاموش ہیں کیونکہ ان علاقوں میں رسم و رواج کے نام پر قبائلی سرداروں، وڈیروں، سیاسی گدی نشینوںاور ان کے حواریوں کا ڈیفیکٹو حق حکمرانی تسلیم کرلیا گیا ہے، یہ منہ زور اور دولت مند طبقہ ریاست پاکستان کو ٹیکس دیتا ہے نہ ریاست کا قانون فالو کرتا ہے لیکن ریاست کی تمام مراعات اور سہولیات حاصل کرتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان کے قبائلی و سرداری نظام کے حامل علاقوں میں کوئی خصوصی نظام ہے تو پھر ان علاقوں کے وڈیروں کو پاکستان کے دیگر علاقوں میں جائیدادیں خریدنے اور کاروبارکرنے اور ریاست کا انفرااسٹرکچر استعمال کرنے کی سہولیات کیسے حاصل ہیں؟ ان علاقوں میں تسلسل کے ساتھ انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی جاری ہے۔

 ان کی وجہ سے پاکستان کو عالمی سطح پر بدنامی اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بلوچستان میں جوکچھ ہوا، وہ اچانک غصے یا اشتعال کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک منظم اور سوچا سمجھا قتل عمد ہے ، جس جرگے نے یہ فیصلہ دیا، وہ کسی ذاتی رنجش یا جذباتی لمحے کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ ایک اجتماعی ظالمانہ ذہنیت اور فرعونیت کا مظہر ہے۔یہ بیمار ذہنیت کمزور کے لیے درندگی اور ظلم سے لبریز ہے جب کہ طاقت کے سامنے منمنانے، منت ترلے اور غلامی سے عبارت ہے۔ یہ ذہنیت آج بھی عورت کو ذاتی ملکیت سمجھتی ہے، ’’غیرت‘‘ کے نام پر قتل کو جائز مانتی ہے، کمزور اور نہتے کو قتل کرکے خود کو غیرت مند اور دلیر کہلانے پر شرمندگی محسوس نہیں کرتی۔

یہ جرگہ کوئی دیہاتی فیصلہ ساز فورم نہیں بلکہ طاقت، خوف اور رسوخ کا نمایندہ نظام ہے جو ریاست کے متوازی چل رہا ہے۔ ان غیرقانونی جرگوں اور پنچائتوں میں جو فیصلے ہوتے ہیں، وہ انسانی حقوق، ملک کے آئینی و قانونی تقاضوں اور اخلاقی اصولوں کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ ان سرداروں، وڈیروں اور قبائلی عمائدین کو سیاسی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ وہ اسمبلیوں میں بیٹھ کر قانون سازی میں حصہ لیتے ہیں، وزارتیں لیتے ہیں، سرکاری فنڈز حاصل کرتے ہیں اور پھر انھی فنڈز اور سیاسی اثرو رسوخ کے زور پر اپنی سلطنت قائم رکھتے ہیں جہاں کمزور خصوصاً خواتین کی کوئی انسانی حیثیت نہیں ہے۔

 یہ نظام صرف بلوچستان کا نہیں بلکہ پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ جرگے، پنچایتیں اور قبائلی فیصلے ریاست ، آئین و قانون اورنظام عدل کو تسلیم نہ کرنے کا عملی اظہار ہیں۔ جب ریاست خود ان متوازی نظاموں کو قبول کر لے تو انصاف دفن ہو جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر کب تک ریاست خاموش تماشائی بنی رہے گی؟ پاکستان میں آج بھی عورت کو اس کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ تعلیم، صحت، وراثت اور شادی جیسے معاملات میں اس کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں۔ قبائلی علاقوں میں تو یہ ظلم کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔

جہاں عورت کو صرف خاندان کی عزت اور سرداری نظام کی ’’غیرت‘‘ کا نشان سمجھا جاتا ہے۔ وہ اپنی مرضی سے سانس بھی لے لے تو یہ جرم بن جاتا ہے۔ بلوچستان میں پیش آنے والا واقعہ اسی پدر شاہی اور ظالمانہ نظام کی عکاسی کرتا ہے۔ جب بھی ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے، چند روز شور مچتا ہے، سوشل میڈیا پر غم و غصہ کا اظہار ہوتا ہے، اخبارات میں اداریے اور کالم لکھے جاتے ہیں، مگر پھر سب کچھ معمول پر آ جاتا ہے۔ مجرم آزاد پھرتے ہیں اور مظلوم قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے۔

 بلوچستان میں اس سے پہلے بھی درجنوں واقعات پیش آ چکے ہیں، جہاں غیرت اور قبائلی روایات کے نام پر انسانوں کو قتل کیا گیا، مگر مقدمات کہیں فائلوں میں دفن ہوگئے۔ ہم ایک ایسے سماج میں جی رہے ہیں جہاں قانون کتابوں میں تو لکھا ہے، لیکن عمل نظر نہیں آتا۔ غیرت کے نام پر قتل صرف قتل نہیں، بلکہ ایک ثقافتی تماشا بن چکا ہے۔

 گو پولیس اب ان واقعات کو نظرانداز نہیں کرتی لیکن جب ملزم گرفتار ہو جائے تو پہلے مرحلے میں پولیس کی تفتیش ہی ناقص ہوتی ہے، قبائلی و سرداری نظام والے علاقوں میں تو پولیس اور قانون صرف نام کے لیے ہوتا ہے، عینی شاہد ہو بھی تو وہ خوف کے مارے گواہی نہیں دیتا ، یوں ملزمان ضمانت پر رہا ہوجاتے ہیں۔

ضمانت کے بعد یا اس دوران مقتول کے خاندان سے معافی یا لین دین کر کے ایسے کیسز کو بند کردیا جاتا ہے جس کو دیکھتے ہوئے جرائم پیشہ ذہنیت کے حامل لوگوں کو مزید حوصلہ ملتا ہے۔ درحقیقت غیرت کے نام پر ہونے والے قتل پر سزاؤں کا تناسب ایک فی صد سے بھی کم ہے، جب ایسے واقعات جن میں صنفی جبر و ظلم پر لوگوں کو سزائیں نہیں ہوں گی اور سزا اور جزا کا تصور نہیں ہوگا تو یہ عمل ایسے مردوں کو یہ سب کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔

پاکستان کے شمال مغربی حصے میں اور قبائلی اور جاگیرداری نظام کے زیرِ اثر جنوب اور مغربی علاقوں میں، عورت کو ذاتی جائیداد سمجھنے اور اسے قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کرنے کا رواج عام ہے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان میں عورتوں کے چہروں کو تیزاب سے مسخ کیے جانے یا انھیں خاندان کی ناموس کے نام پر قتل کیے جانے سے بچانے کے لیے قانون منظور کیے گئے ہیں۔ عورتوں پر ظلم و زیادتی خلاف ِ قانون قرار دیے جانے کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے۔

پاکستانی پس منظر میں ہمیں قبائلی اور جاگیردارانہ پدر شاہی رویے ہر جگہ نظر آتے ہیں ۔ عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے جیسے قبائلی و جاگیرداری نظام کمزور ہو رہا ہے اور شہروں کی آبادی بڑھ رہی ہے، عورتوں کی بھلائی ہو رہی ہے اور جدیدیت میں ان کے حقوق زیادہ ہیں۔ پاکستان کے دور دراز علاقوں میں عورتوں اور معصوم بچوں کے خلاف جرائم کی شرح میں اضافہ تشویشناک ہے۔ غیرقانونی قبائلی جرگہ، پنچایت، جبری محنت، جائیداد اور مذہب کے معاملات میں یہ ایک نہایت ہی سخت پدر سری نظام ہے، کمزوروں کا استحصال، جبر اور تشدد کی نئی اور الگ قسمیں متعارف ہورہی ہیں، عورتوں پر تشدد، ان کا قتل اور ان کا وسائل سے محروم رہنا، اور عدم صنفی مساوات نے صورتحال کو سنگین کیا ہے ۔

 قبائلی و سرداری نظام اگر اتنا ہی مہذب اور منصفانہ ہوتا تو آج وہاں تعلیم، صحت، ترقی، روزگار اور خواتین کے حقوق کی صورتحال ایسی نہ ہوتی۔ ہمیں ان جرگوں کے خلاف سخت کارروائی کرنا ہوگی جو ریاست کے متوازی نظام کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

پارلیمنٹ میں ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے جو نہ صرف ان جرگوں کو خلاف قانون قرار دے بلکہ ان کے فیصلوں پر عملدرآمد کو بھی جرم سمجھا جائے۔جو لوگ ان جرگوں میں فیصلے کرتے ہیں، ان فیصلوں کی تائید کرتے ہیں، ان کے خلاف بھی سخت قانون بنائے جانے چاہیے۔ پولیس اور انتظامیہ کو ان جرائم پر فوری اور سخت کارروائی کا اختیار اور تحفظ دیا جائے۔ میڈیا، سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیمیں، اور عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ یہ صرف بلوچستان یا کسی مخصوص قبیلے کا مسئلہ نہیں، یہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے اور جب تک ہم اسے قومی مسئلہ نہیں مانیں گے، تب تک یہ ظلم جاری رہے گا۔

ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم قانون کے مطابق چلنے والی ریاست چاہتے ہیں یا جاگیرداروں کے فیصلوں پر چلنے والی سلطنت۔ ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ ہم آئین کو بالا دست مانتے ہیں یا دھونس دھاندلی کے نظام کو۔ ہمیں یہ سوچنا ہے کہ اگر آج ہم نے خاموشی اختیارکی تو کل یہ ظلم ہمارے دروازے تک آ جائے گا، جو قومیں مظلوموں کے ساتھ کھڑی نہیں ہوتیں، وہ تاریخ کے کوڑے دان میں دفن ہو جاتی ہیں، اگر ہم زندہ قوم بننا چاہتے ہیں تو ہمیں آج اور ابھی آواز اٹھانی ہوگی، قانون کو مضبوط بنانا ہوگا اور ظالموں کوکٹہرے میں لانا ہوگا، ورنہ کل جب تاریخ لکھی جائے گی تو ہم سب ایسے قتل کے شریک جرم ہوں گے۔

اپنا تبصرہ لکھیں