بیساکھیوں کی سیاست۔ مفاہمت یا مجبوری؟

سیاست کو اگر ممکنات کا کھیل کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہاں نہ کوئی دائمی دشمن ہوتا ہے نہ ہمیشہ کا دوست ، کل کے کٹر مخالفین آج ایک ہی میز پر بغلگیر دکھائی دیتے ہیں اور کل کے حلیف کلہاڑی لے کر ایک دوسرے کے درپے ہو سکتے ہیں۔ یہ کیفیت پاکستانی سیاست میں خاص طور پر زیادہ نمایاں ہے جہاں اصولوں سے زیادہ مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے اور نظریات سے زیادہ نرگسیت غالب آتی ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ عوامی مینڈیٹ کو اکثر و بیشتر وہ اہمیت نہیں دی گئی جو جمہوری اقدار کا تقاضا ہوتا ہے۔ 1988 کے بعد کئی بار ایسا ہوا کہ انتخابات کے ذریعے قائم ہونے والی حکومتیں’’نادیدہ قوتوں‘‘کی جانب سے عدم استحکام کا شکار بنائی گئیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت ہو یا نواز شریف کی دوسری، ہر بار کوئی نہ کوئی بہانہ، الزام یا مصنوعی بحران کھڑا کیا گیا اور پھر اقتدار کا تانا بانا انھی ’’بیساکھیوں‘‘کے سہارے جوڑا گیا جنھیں عوامی مینڈیٹ کا احترام تو درکنار اس کا شعور تک نہ تھا۔

موجودہ وفاقی حکومت بھی انھی بیساکھیوں پر کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ کل کے سیاسی دشمن آج اقتدار کے ہموار فرش پر ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ وہ رہنما جنھوں نے ماضی میں ایک دوسرے کو غدار، چور، ڈاکو اور نالائق جیسے خطابات سے نوازا، اب ایک ہی کابینہ میں بیٹھے دکھائی دیتے ہیں لیکن یہ منظر صرف بظاہر مفاہمت کا ہے، اندرونی طور پر بداعتمادی اور خودغرضی کا کھیل جاری ہے۔

کبھی کوئی اتحادی جماعت ناراضی کا ڈرامہ رچاتی ہے، کبھی کوئی دھمکی دیتا ہے کہ وہ حکومت چھوڑ دے گا مگر کچھ ہی دنوں میں ’’بڑے ‘‘آ کر معاملات سدھار دیتے ہیں اور سب کچھ دوبارہ معمول پر آ جاتا ہے۔ایسی ہی ایک سیاسی انہونی گزشتہ دنوں سینیٹ کے انتخابات میں دیکھنے کو ملی جب خیبر پختونخوا جیسے سیاسی طور پر حساس صوبے میں پاکستان تحریک انصاف نے جس کے پاس واضح اکثریت موجود ہے، اپوزیشن کے ساتھ اتحاد کر کے انتخابات میں حصہ لیا۔

یہ ایک غیر متوقع فیصلہ تھا کیونکہ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین اور ان کے حمایتی شروع دن سے حکومتی جماعتوں سے کسی بھی مفاہمت سے انکاری رہے ہیں۔ ان کا بیانیہ مسلسل مقتدر حلقوں کی طرف اشارہ کرتا رہا ہے اور وہ یہی کہتے آئے ہیں کہ اصل مسئلہ سیاسی نہیں اسٹیبلشمنٹ سے ہے۔

تاہم وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کی قیادت میں خیبر پختونخوا میں اپوزیشن سے مفاہمتی انداز میں سینیٹ انتخابات لڑنا نہ صرف پی ٹی آئی کے کارکنان بلکہ غیر جانبدار مبصرین کے لیے بھی حیرت کا باعث بنا۔ سوشل میڈیا پر کارکنان کی جانب سے بے چینی اور اضطراب واضح طور پر دیکھا گیا۔

ان کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہو رہا ہے کہ ایک ایسی قیادت جو بیانئے پر ڈٹے رہنے کی قسمیں کھاتی رہی، اب اقتدار کے تسلسل کے لیے اس بیانیے کو پیچھے چھوڑنے پر کیوں آمادہ ہو گئی؟کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ مکمل طور پر بانی چیئرمین کی منظوری سے کیا گیا ہے تاکہ سینیٹ میں نمایندگی کو یقینی بنایا جا سکے اور اراکین کی ممکنہ بغاوت سے بچا جا سکے۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ یوٹرن قیادت کی پوزیشن کو کمزور نہیں کرے گا؟ کیا اس سے کارکنوں کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچے گی؟

 سیاست میں بعض اوقات ایسے فیصلے مجبوری کے تحت بھی کرنا پڑتے ہیں۔ قیادت اگر محسوس کرے کہ شدید نقصان سے بچنے کے لیے وقتی مفاہمت ضروری ہے تو ایسا کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ اس کی وضاحت دیانتداری سے کارکنان کو کی جائے۔ بدقسمتی سے پی ٹی آئی کی قیادت نے اپنے کارکنوں کو نہ تو اعتماد میں لیا اور نہ ہی کوئی واضح پالیسی بیان دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اب شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔اس سارے معاملے میں ایک پہلو خوش آیند بھی ہے اور وہ یہ کہ اگر یہ مفاہمت واقعی جمہوری عمل کو مضبوط کرنے کے لیے کی گئی ہے تو اسے سراہا جانا چاہیے۔

ماضی میں سینیٹ انتخابات پر ہمیشہ انگلیاں اٹھتی رہی ہیں اور مخصوص نشستوں کی بندر بانٹ نے عوامی اعتماد کو مجروح کیا ہے۔ اس بار بھی مخصوص نشستوں کے معاملے پر شدید عوامی ردعمل سامنے آیا۔

خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کو مینڈیٹ ملنے کے باوجود اسمبلی میں دیگر جماعتوں کو مخصوص نشستیں دے دی گئیں جس نے اس بیانیے کو مزید تقویت دی کہ اصل اختیار عوام کے پاس نہیں بلکہ کہیں اور ہے۔اگر ہم پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جھانکیں تو ہمیں ایسے کئی مواقع ملیں گے، جب سیاسی جماعتوں نے مفاہمت کا راستہ اختیار کیا مگر وہ وقتی مفاد تک محدود رہی۔ 2006 میں میثاقِ جمہوریت کے ذریعے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے مفاہمت کا ایک بڑا قدم اٹھایا لیکن بعد میں دونوں جماعتیں پھر سے ایک دوسرے کی مخالف بن گئیں۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں بھی ایسا ہی خدشہ موجود ہے کہ یہ مفاہمت زیادہ دیرپا نہیں ہوگی۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت کو ایک اصول کے طور پر نہیں بلکہ بطور آلہ کار استعمال کیا جاتا ہے۔ اقتدار کے حصول اور تحفظ کے لیے جمہوری لبادہ اوڑھ لیا جاتا ہے مگر عمل جمہوریت سے کوسوں دور ہوتا ہے۔

سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنے کے بعد عوامی مسائل کو نظرانداز کرتی ہیں اور بیوروکریسی، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت میں لگ جاتی ہیں تاکہ اپنی مدت پوری کی جا سکے۔اس پس منظر میں اگر ہم سینیٹ انتخابات میں اپوزیشن و حکومت کے درمیان ہونے والی مفاہمت کو دیکھیں تو یہ خوش آیند تب ہی ہو سکتی ہے، جب اس کے نتیجے میں پارلیمانی جمہوریت کو تقویت ملے، ادارے آئینی دائرہ کار میں رہیں اور عوام کو بھی اس مفاہمت کے ثمرات پہنچیں۔ صرف اقتدار کا تسلسل، کرسی کی بقاء اور ذاتی مفادات کو بچانا اگر اس مفاہمت کا مقصد ہے تو یہ بھی جلد ہی بے نقاب ہو جائے گا۔

ہماری دعا یہی ہے کہ سیاستدان بالغ نظری کا مظاہرہ کریں، عوامی اعتماد کو بحال کریں اور جمہوریت کو صرف انتخابی نعرہ نہ بنائیں بلکہ اس کو طرز حکمرانی کا مستقل حصہ بنائیں۔ کیونکہ یہی واحد راستہ ہے جس سے پاکستان نہ صرف سیاسی طور پر مستحکم ہو سکتا ہے بلکہ معاشی اور سماجی ترقی کی راہ پر بھی گامزن ہوسکتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں