یورینیم افزودگی کیوں کر بہت مشکل لیکن اہم ہے

قدرت نے ہمیں بہت سے عناصر Chemical Elementsسے نوازا ہے۔ سورج کے اندر ہائیڈروجن جلتی ہے تو نظامِ شمسی بخوبی چل رہا ہے۔آکسیجن ہماری فضاء میں موجود ہے تو ہم اسے سانس کے ذریعے جسم کے اندر لے جاتے ہیں اور ہمارا خون صاف ہوتا ہے۔

1869میں روسی سائنسدان ڈیمتری منڈالیف نے ایٹم کے مرکزے میں پروٹانزProtons کی مقدار کی بنیاد پر پیریاڈِک ٹیبلPeriodic Table مرتب کیا۔کسی بھی ایٹم کے مرکزےNucleusمیں پروٹانز کی مقدار ہی کسی عنصرElementکو عنوان بخشتی ہے۔

اس ٹیبل کی ابتدا ہائیڈروجن کے عنصر سے ہوتی ہے کیونکہ ہائیڈروجن کے مرکزے میں صرف ایک پروٹان ہوتا ہے جس کے گرد ایک ہی الیکٹران گردش کر رہا ہوتا ہے۔ایٹموں کے مرکزے میں جوں جوں پروٹانز کی تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے توں توں عنصر بھاری ہوتا جاتا ہے۔

اب تک کی دریافت کے مطابق قدرتی طور پر پائے جانے والے کل 92 ایسے عناصر ہیں۔یہ 92واںیورینیم کا عنصر ہے،قدرتی طور پر ملنے والا سب سے بھاری ریڈیو ایکٹو عنصر اس کوU سے تعبیر کیا جاتا ہے۔قدرتی طور پر ملنے والی اس بھاری دھات کے تین آئی سو ٹوپس ہوتے ہیں۔آگے بڑھنے سے پہلے آئی سوٹوپس کو سمجھ لینا ضروری ہے۔

آئی سو ٹوپسIsotopesایسے ایٹم ہوتے ہیں جن کا ایٹمی نمبر یعنی اس کے مرکزے میں پروٹونز کی تعداد ایک جیسی ہوتی ہے لیکن کمیتی نمبرMass number یعنی اس میں نیوٹرانز کی تعداد مختلف ہوتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ Isotopesایک ہی عنصر کے وہ مختلف رُوپ ہوتے ہیں جن میں پروٹانز کی تعداد برابر جب کہ نیوٹرانز کی تعداد مختلف ہوتی ہے۔

جیسے کاربن کے عنصر کو لیں تو اس کے بھی تین Isotopesپائے جاتے ہیں۔کاربن 12میں چھ پروٹانز اور چھ ہی نیوٹرانز،کاربن13، میں چھ پروٹانز اور سات نیوٹرانز جب کہ کاربن14میں چھ پروٹانز اور8نیوٹرانز پائے جاتے ہیں۔سادہ الفاظ میں Isotopes ایک ہی عنصر کی مختلف اقسام ہوتی ہیں جن کی شناخت نیوٹرانز کی تعداد سے ہوتی ہے۔

یورینیم بھی اسی طرح تین آئی سوٹوپس، یورینیم 234، یورینیم235اور یورینیم 238رکھتا ہے۔یہ چاندی مائل سفید رنگ کی دھات ہے۔تابکار ہے یعنی خود بخود تحلیل ہو کر تابکار شعائیں خارج کرتا ہے۔یورینیم235 ایٹمی بجلی گھروں اور ایٹمی ہتھیاروں میں ایندھن کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔یہ توانائی کا بہت بڑا،بہت طاقتور ذریعہ ہے جو ایٹمی ری ایکٹرز میں استعمال ہوتا ہے۔یہ ایٹمی آبدوزوںکا بھی ایندھن بنتا ہے۔

پہلے کہا گیا کہ قدرتی طور پر ملنے والے تمام عناصرمیں یورینیم سب سے بھاری عنصر ہے لیکن ہم انسان ہر وقت کچھ مزید کی جستجو میں رہتے ہیں۔ہمیں قدرت نے جو کچھ دیا ہے اس پر قانع نہیں ہوتے۔ یورینیم کا اٹامک نمبر92ہے اور یہ آخری عنصر ہے لیکن پیریاڈک ٹیبل پر نظر دوڑائیں تو عناصر کی کل تعداد 118ہو چکی ہے۔

اب آخری عنصر Oganessan  ہے۔یہ ایک Syntheticعنصر ہے جو سب سے بھاری عنصر یورینیم سے 26اٹامک نمبر زیادہ بھاری ہے۔یورینیم کے تین آئی سو ٹوپس یورینیم 234,235238ہیں۔یورینیم234کے مرکزے میں142نیوٹرانز،یورینیم 235کے مرکزے میں 143نیوٹرانز اور یورینیم238کے مرکزے میں 146نیوٹرانز پائے جاتے ہیں جب کہ تینوں آئی سوٹوپس میں سے ہر ایک کے پاس92پروٹانز ہوتے ہیں۔

بھاری عناصر کسی حد تک unstableہوتے ہیں کیونکہ بہت سے پروٹونز مرکزے سے جڑے رہنا چاہتے ہیں۔یہ اس وجہ سے ہوتا ہے کیونکہ مرکزے میں پازیٹو چارج ہوتا ہے جو پروٹانز کو بھی پازیٹو رہنے میں مددگار ہوتا ہے لیکن ایک جیسے چارج ایک دوسرے کو ری پل کرتے ہیں،یوں نیوکلس پروٹانز کو ری پل کرتے ہوئے Unstableکر دیتا ہے۔

نیوٹرانز کے اوپر کوئی چارج نہیں ہوتا اس لیے نیوٹرانز جب مرکزے کی طرف بڑھتے ہیں تو کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی۔ نیوٹرانز جب مرکزے پر بمبارڈ کیے جاتے ہیں تو ایٹم تقسیم ہو کر دو چھوٹے ایٹموں میں بٹ جاتا ہے لیکن ان دونوں کی کمیت کم ہو جاتی ہے۔کمیت کم تو ہوتی ہے لیکن اس کمی کی وجہ سے بے انتہا انرجی ریلیز ہوتی ہے۔

234اور238 کے مرکزوں پر نیوٹران بمبارڈمنٹ سے تقسیم تو ہوتی ہے لیکنChain Reaction جاری نہیں ہوتا۔ یہ صرف یورینیم235ہے جس کے ایٹم کے ٹوٹنے اور تقسیم سے ایک Chainری ایکشن جاری ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ٗU-235بہت ہی اہم ہے۔Chain ری ایکشن میں پہلے دو نیوٹران عمل پذیر ہوتے ہیں،پھر چار پھر آٹھ،پھر سولہ اور یوں یہ عمل بار بار خود بخود دہرایا جاتا ہے اور بے پناہ انرجی ریلیز ہوتی ہے۔

 یورینیم کی دھات چونکہ اس کے تینوں آئی سو ٹوپس کے آمیزے کی شکل میں ملتی ہے ،اس لیے افزودگی کے ذریعے اس آمیزے میں سے یورینیم 235 کو الگ کرنا ضروری ہوتا ہے۔افزودگی کا یہ عمل کئی طریقوں سے ہو سکتا ہے۔آمیزے میں یورینیم 238 ننانوے فیصد ،235یورینیم 0.7فیصد اور بقیہ یورینیم 234ہوتی ہے۔

انسان کو توانائی اور ہتھیاروں کے لیے صرف اور صرف خالص 235درکار ہوتی ہے۔ توانائی کے حصول کے لیے ایٹمی ری ایکٹر کو صرف 5فیصد افزودہ یورینیم 235 درکار ہوتی ہے۔ایٹمی آبدوز کو کمیشن کرنے کے لیے کوئی 20فیصد افزودہ یورینیم جب کہ ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے 90فیصد سے اوپر افزودہ یورینیم درکار ہوتی ہے۔

یورینیم 235کو افزودہ کرنے کے لیے سینٹری فیوجز یا لیزر بیمLaser beem چاہیے۔سینٹری فیوجز سالڈ میٹریل پر کام نہیں کرتیں۔اس کے لیے یورینیم دھات کو پہلے محلول Liquidیا گیس کی شکل دی جاتی ہے۔مادے کی ان دونوں حالتوں میں سے یورینیم کو گیس میں تبدیل کرنا زیادہ آسان اور سستا ہوتا ہے۔

یورینیم افزودگی ایک ایسا سائنسی اور ٹیکنیکل عمل ہے جو جوہری توانائی اور جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔اس عمل میں قدرتی حالت میں ملنے والی یورینیم یعنی اس کے تینوں آئی سو ٹوپس میں سے یورینیم235کو الگ کر کے اس کی خالص مقدار کو 0.7فیصد سے بڑھایا جاتا ہے تاکہ اسے مطلوبہ مقاصد کے لیے استعمال میں لایا جا سکے۔

اس سلسلے میں گیس سینٹری فیوج سب سے کارآمد اور وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والا طریقہ ہے۔اس طریقے میں یورینیم ہکسا فلورائیڈ گیس U-Hexa floride کی مدد سے 235 آئی سو ٹوپ کو الگ کیا جاتا ہے۔ایک سینٹری فیوج مشین میں گیس کو انتہائی تیز رفتاری سے گھمایا جاتا ہے۔

بھاری238آئی سو ٹوپ نیچے اور باہر کی جانب جاتا ہے جب کہ نسبتاً ہلکا235اوپر اور اندر کی طرف مرتکز ہوتا ہے۔اس عمل کو کئی مراحل میں دہرایا جاتا ہے تاکہ افزودگی کی مطلوبہ سطح حاصل ہو سکے۔ لیزر افزودگی سب سے جدید مگر سب سے مشکل اور پیچیدہ طریقہ ہے۔

اس میں لیزر بیم کے ذریعے مخصوص آئی سو ٹوپ کو متحرک یا الگ کر لیا جاتا ہے۔یہ طریقہ بہت زیادہ افزودگی اور بڑے پیمانے پر افزودگی حاصل کرنے کے لیے کارآمد ہے مگر ابھی یہ طریقہ تجرباتی مراحل میں ہے۔

ربِ کریم کا بہت بہت احسان ہے کہ پاکستان نے 1980کی دہائی میں ویپن گریڈیورینیم افزودگی صلاحیت حاصل کر لی تھی۔اقوامِ عالم کی اس وقت غالب قوتیں کسی بھی مسلمان ملک کو یہ صلاحیت حاصل نہیں کرنے دیتیں۔یہی وجہ ہے کہ ایران کا اس سلسلے میں راستہ روکا جا رہا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں