کوئی نیلسن منڈیلا نہیں – ایکسپریس اردو

حکمرانوں کی سیاسی مخالفین سے غیر منصفانہ اور متعصبانہ سلوک کی ایک سیاہ تاریخ ہے۔ صرف برصغیر ہندوستان کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو بادشاہ اپنے مخالفین کے ساتھ بدترین سلوک روا رکھتے تھے۔ بادشاہوں کے مخالفین کو ریاست کا ’’غدار‘‘ قرار دیا جاتا تھا ۔ مغل بادشاہ اپنے مخالفین کو سزائے موت دینا معمول کی کارروائی سمجھتے تھے یا کسی منحرف کی آنکھوں میں گرم سلائی پرو دینا اور برسوں زندان خانوں میں بھیج کر بھول جانا عام سی بات تھی۔

ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر ہندوستان میں اقتدار پر قبضہ کرنا شروع کیا۔ کمپنی کے افسران مخالفین کے ساتھ بدترین سلوک کرتے تھے، جب بہادر شاہ ظفر کی حکومت کو 1857ء کی جنگ آزادی میں شکست ہوئی تو انگریز فوج دلی میں داخل ہوئی تو انگریز افسروں نے سیکڑوں ہزاروں افراد کو بغاوت کے جرم میں سزائے موت دی۔

بادشاہ بہادر شاہ ظفرکو ایک تھال پیش کیا گیا، جس میں اس کے شہزادوں کے سر قلم کردیے گئے تھے ۔ کمپنی کی حکومت ختم ہوئی اور برطانوی ہند حکومت قائم ہوئی۔ لندن کی حکومت کے مقررکردہ گورنر جنرل نے ہندوستان کا نظام سنبھال لیا۔ گورنر جنرل کی حکومت نے تعزیراتِ ہند نافذ کیا۔گورنر جنرل کی حکومت نے آزادی ہند کا مطالبہ کرنے والے بہت سے افراد کو کالے پانی کی سزا دینا شروع کی۔

اس سزا کے تحت آزادی کا مطالبہ کرنے والے حریت پسندوں اور ہندوستان سے جلاوطن کرکے جزائر انڈومان اور بینکو بار بھیج دیا جاتا تھا جہاں ان حریت پسندوں کو 15 سے 20 سال تک قید کی سزا دی جاتی تھی۔ جمعیت علمائے ہند اورکانگریس کے بہت سے رہنماؤں کو یہ سزا دی گئی۔ ان میں سے بہت سے افراد ان جزائر میں ہی شہید ہوجاتے تھے۔

انگریز حکومت نے گزشتہ صدی کے آغاز کے ساتھ منحرفین کے ساتھ کچھ نرم رویہ برتنا شروع کیا۔ اب کانگریس میں جمعیت علمائے ہند اور کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں کو خصوصی قوانین کے تحت کئی کئی سال کی سزائیں دی جانے لگیں۔ ان لوگوں پر حکومت کا تختہ الٹنے کے الزامات لگائے جاتے۔ اسپیشل کورٹس انھیں 10 سے 20 سال تک سزائیں دیتی تھیں۔

جب 40ء کے عشرے میں کانگریس نے ’’ ہندوستان چھوڑ دو‘‘ تحریک شروع کی تو انگریز حکومت نے کانگریس کی ساری قیادت کو گرفتار کیا۔ ان تمام رہنماؤں کو کئی کئی سال قید میں رکھا گیا۔ مولانا ابو الکلام آزاد، پنڈت نہرو اور مہاتما گاندھی اور دیگر رہنماؤں کو احمد نگر قلعہ میں 4 برس تک نظربند رکھا گیا۔ اس دوران ابو الکلام آزاد جب جیل سے رہا ہوئے تو خطوط کا ایک پلندہ ان کے حوالے کیا گیا۔ اس پلندے میں کئی خطوط ان کی اہلیہ کی شدید بیماری اور ایک خط ان کے انتقال کے بارے میں تھا۔

ہندوستان کا بٹوارہ ہوا اور نیا ملک پاکستان اس اعلان کے ساتھ وجود میں آیا کہ جو سیاہ قوانین برطانوی ہند حکومت میں نافذ تھے، وہی قوانین آزادی کے بعد بھی نافذ ہونگے۔ مسلم لیگ کی پہلی حکومت میں حکومت کی مخالفت کرنے والے رہنماؤں کو ریاست مخالف اور غدار قرار دیا جانے لگا۔ کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل سجاد ظہیر اور معروف دانشور سید سبط حسن وغیرہ اور دیگر لوگوں کے پاکستان آنے سے پہلے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے۔

اس کے ساتھ ہی مشرقی پاکستان، بلوچستان اور پختونخوا(اس وقت کے صوبہ سرحد) کے قوم پرست جنھوں نے ساری زندگی انگریز حکومت کے خاتمے کی جدوجہد کی تھی، انھیں سیکیورٹی اور سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتارکیا گیا۔ نام نہاد راولپنڈی سازش کیس میں کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل سجاد ظہیر، معروف شاعر فیض احمد فیض اور دیگر رہنماؤں کو گرفتار کرنے کا مقدمہ چلایا گیا۔ مگر معاملہ صرف کمیونسٹ پارٹی تک محدود نہ رہا۔ جماعت اسلامی کے رہنماء مولانا مودودی اور ان کے تمام رفقاء کو بھی گرفتار کیا گیا، پھر جنرل ایوب خان ملک کی قسمت کے مالک بن گئے۔

ایوب خان کی حکومت نے اپنے مخالفین کے ساتھ وہی رویہ اختیار کیا جو انگریز حکومت نے کیا تھا۔ ایوب خان کے 10 سالہ دور میں نیشنل عوامی پارٹی، عوامی لیگ، نیشنلسٹ پارٹی، کمیونسٹ پارٹی، جماعت ا سلامی اور دیگر جماعتوں کے رہنماؤں کو طویل عرصے نظربند رکھا گیا۔

کمیونسٹ پارٹی کے رہنماء حسن ناصر پہلے سیاسی کارکن ہیں جنھیں پاکستان بننے کے بعد لاہور کے شاہی قلعے میں شہید کیا گیا۔ نیشنل پارٹی بلوچستان کے رہنماؤں غوث بخش بزنجو اور عطاء اﷲ مینگل وغیرہ کو خصوصی عدالتوں سے طویل مدت کی سزائیں دی گئیں اور جیلوں میں سیاسی قیدیوں کو کوڑے بھی مارے گئے۔ جنرل یحییٰ خان کے دور میں پیپلز پارٹی کے بعض رہنماؤں اور کارکنوں کو غیر سول عدالتوں نے سزائیں دیں۔ اس دور میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کے رہنما اور کارکن اور مزدور رہنما بھی پابند سلاسل ہوئے۔

جب 1970 کے عام انتخابات کے بعد جنرل یحییٰ خان نے اکثریتی جماعت عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کیا اور عوامی لیگ کے خلاف فوجی آپریشن ہوا تو فوجی عدالتوں میں روزانہ سیکڑوں سیاسی کارکنوں کو سزائیں سنائی گئیں۔ عوامی لیگ کے شیخ مجیب میانوالی جیل میں نظربند رہے۔

 پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں سیاسی مخالفین کے ساتھ ناروا سلوک ہوتا رہا۔ حکومت نے نیشنل عوامی پارٹی کو غدار قرار دے کر پابندی عائد کردی۔ کالعدم نیشنل عوامی پارٹی اور پیپلز پارٹی کے بعض منحرفین کے خلاف حیدرآباد سازش کیس کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا۔ ابھی یہ مقدمہ نامکمل تھا کہ سربراہ مملکت جنرل ضیاء الحق نے یہ مقدمہ واپس لے لیا۔

جنرل ضیاء الحق کا دور سیاسی منحرفین کے لیے عبرت ناک دور تھا۔ حکومت کے خلاف مزاحمت کرنے پر پیپلز پارٹی اور بائیں بازوکی جماعتوں کے ہزاروں کارکنوں کو غیر سول عدالتوں نے سزائیں دیں۔ ان سزاؤں میں کوڑے مارنا بھی شامل تھے اورکچھ کو پھانسیاں بھی دی گئیں۔

پیپلز پارٹی بائیں بازوؤں کے کارکنوں کے علاوہ صحافیوں، ادیبوں، خواتین کو لاہور کے شاہی قلعے میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کو متنازع مقدمے میں سزائے موت دی گئی۔ محمد خان جونیجو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں سیاسی مخالفین کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔ میاں نواز شریف کی حکومت کے دونوں ادوار میں صدر آصف زرداری سمیت پیپلز پارٹی کے کئی رہنما پابند سلاسل رہے۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے دوسرے دور میں میاں نواز شریف کے والد میاں محمد شریف کو گرفتار کیا گیا۔ مسلم لیگ کے کئی رہنما حراست میں رکھے گئے۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں میاں نواز شریف اور دیگر مسلم لیگی رہنما مسلسل جیلوں میں بند رہے۔ بلوچستان کے سابق گورنر اکبر بگٹی کے قتل اور لاپتہ افراد کا مسئلہ شروع ہوا۔ بلوچ کارکنوں اور پختون کارکنوں کے علاوہ سندھی قوم پرست، ایم کیو ایم اور مذہبی گروپوں کے مختلف افراد لاپتہ ہوئے۔ پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت میں بھی بلوچ اور پختون کارکنوں کے علاوہ ایم کیو ایم کے کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ جاری رہا۔ تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے کئی رہنماؤں کو مسلسل جیلوں میں بند رکھا گیا۔

میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی کو اڈیالہ جیل میں قید کیا گیا، میاں صاحب کی اہلیہ کلثوم نواز زندگی اور موت کی کشمکش میں لندن میں مبتلا تھیں۔ میاں صاحب ان کی خیریت معلوم کرنا چاہتے تھے مگر جیل سپرنٹنڈنٹ نے اجازت نہیں دی تاہم چند گھنٹوں بعد ان کی اہلیہ کی موت کی خبر ضرور سنائی۔ حکومتی بیانیے سے انحراف کرنے والے صحافیوں کے لیے مسائل پیدا کیے جا رہے ہیں، موجودہ منتخب اراکین کو دس، دس سال سزائیں دی جا رہی ہیں، سزا پانے والوں میں کینسر میں مبتلا ایک خاتون ڈاکٹر بھی شامل ہیں۔

میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان میثاق جمہوری ’’Truth and Reconciliation Commission‘‘ کے قیام کا وعدہ کیا گیا تھا۔ گزشتہ دنوں حزب اختلاف کی جماعتوں کی کانفرنس میں پھر اس کمیشن کا ذکر ہوا، مگر ملک میں کوئی نیلسن منڈیلا پیدا نہیں ہوا، جو ایسا کمیشن بنا سکے، یوں نظر آتا ہے کہ ہر حکومت کے دور میں منحرفین کے خلاف جبر و تشدد کی روایت برقرار رہے گی۔

اپنا تبصرہ لکھیں