دنیا کااصل سفر ‘ انسان کی اپنی ذات کے اندر طے ہوتا ہے۔
اکثر اوقات سفر آپ کو‘ منزل کے متعلق سبق دیتا ہے۔
خواب دیکھنا کبھی بھی مت چھوڑیئے گا۔ باوجود اس کے کہ زندگی کتنی بھی تکلیف دہ اور مشکل ہو۔
زندگی کے متعلق سب سے خوبصورت المیہ یہ ہے کہ اس کے متعلق کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔
خوبصورتی ایک مختصردورانیے کا ظلم ہے ۔
آزادی کا راز ‘ انسانوں کو تعلیم دینے میں ہے۔ جب کہ ظلم کا راز ان کو جاہل رکھنے میں ہے۔
ظلم کے لیے ضروری ہے کہ سچ بولنے والے انسانوں کو خاموش کر دیا جائے۔
ہر کام اس وقت تک ناممکن ہے جب تک کہ اسے کر نا لیا جائے۔
زندگی میں محض دس فیصد وہ ہے جو آپ کے ساتھ ہوا ہے ۔نوے فیصد دراصل آپ کا رد عمل ہے ۔
مشکلات انسان کی زندگی کو روکنے کے لیے نہیں ہوتیں بلکہ یہ زندگی کی سمت مقرر کرتی ہیں۔
سمندر کو کنارے پر کھڑا ہو کر گھورنے سے اسے عبور نہیں کیا جاسکتا۔
یا تو آپ راستہ ڈھونڈ لیں گے ورنہ ایک نیا راستہ بنا لیں گے۔
اس شخص کو ختم نہیں کیا جا سکتا جو ڈرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
انسان دنیا کا سب سے شریف جانور ہے ۔صرف اس وقت تک جب تک قانون اور انصاف سے دور نہیں ہوتا ۔ پھر وہ بدترین جانور میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
اچھی طرح رہنا دنیا کا سب سے بڑا انتقام ہے ۔
انسان کا بہترین علاج ‘ اس کی خاموشی میں پوشیدہ ہے۔
مستقبل کے متعلق بہترین پیشن گوئی صرف یہ ہے کہ اسے اپنی محنت سے بنا لیا جائے۔
بہترین بینائی ‘ آنکھوں سے دیکھنا نہیں بلکہ روح سے محسوس کرنا ہے۔
انسانی زندگی کے بہترین خیالات وہ ہیں جو کبھی بھی پڑھائے نہیں جاتے ۔
بہترین شیشہ آپ کا پرانا دوست ہی ہو سکتا ہے۔
عقل مند آدمی کو کبھی عقل مند نظر نہیں آنا چاہیے۔
بہترین کی تلاش‘ اچھائی کی دشمن ہو سکتی ہے۔
علم پر خرچ کرنا ‘ زندگی کا بہترین سود ہو سکتا ہے۔
تمام لوگ کسی نہ کسی حد تک ظلم برداشت کر سکتے ہیں ۔ مگر انسان کا اصل کردار اس وقت سامنے آتا ہے جب اسے حکمرانی دے دی جائے۔
اگر آپ نے لوگوں کو حیران کرنا ہے تو ہر کام درست طریقے سے کرنا شروع کر دیجیے ۔
کوئی ایسا کام نہ کیجیے جس کو آپ گہرائی سے نہیں جانتے۔
بہترین قائد وہ ہے جو بذات خود دیگر قائدین کو ترتیب دیتا ہے۔
قیادت کو پرکھنے کی صرف ایک کسوٹی ہے کہ وہ خواب کو حقیقت میں کیسے بدل دیتی ہے۔
کسی بھی قائد کو محض ایک خوبی درکار ہے ۔ وہ یہ کہ وہ کتنا ایماندار ہے ۔
جھوٹ کبھی سچ نہیں بن سکتا ‘ غلط کام کبھی درست نہیں ہو سکتا اور بدی کبھی اچھائی نہیں بن سکتی‘ صرف اس لیے کہ اسے اکثریت تسلیم کرتی ہے۔
اچھے لوگوں کو قانون بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ ذمے داری سے زندگی گزاریں۔ برے لوگوں کو بھی قانون بتانے کا کوئی فائدہ نہیںکیونکہ وہ اس کو اپنے مفاد میں بدل دیں گے۔
جھوٹے حکمران کا سب سے مؤثر ہتھیار ‘ اس پر عام آدمی کا ناقص بھروسہ ہے ۔
سانپ غلطی کرنے کے بعد ہمیشہ انسان کی آنکھوں کو گھورتا ہے۔
اگر آپ کسی کاذب کو شرمندہ کرنا چاہتے ہیں تو اس سے صرف سوال پوچھئے۔
دنیا میں سب سے خوفناک درندہ آپ کا جعلی دوست ہے۔
غلطی کو دوہرانے کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ آپ کا فیصلہ ہے۔
خواہشات ‘ آپ کو زخمی کر دیتی ہیں ۔
کوئی شخص آپ کی تکالیف نہیں دیکھتا مگر ہر کوئی آپ کی غلطیوں پہ نظر رکھتا ہے۔
عوام صرف مشکلات کی بات کرتے ہیں۔ قائد ان کو حل کرنے کی تدبیر بناتے ہیں۔
تعلیم ‘قیادت کی ماں ہوتی ہے۔
جہاں کوئی خواب نہیں ہوتا وہاں کوئی امید جنم نہیں لے سکتی۔
حکمرانی کا جوہر ‘ ناں کہنے میں ہے ۔ ہاں کہنا تو سب سے آسان بات ہے۔
دنیا کا سب سے خطرناک انسان ایک بزدل رہنما ہوتا ہے۔
اگر آپ اپنے بچوں کو سہارا دیتے ہیں تو اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ آپ ایک اچھے والد ہے۔
دنیا کے لیے محض آپ والد ہوتے ہیں۔ مگر اپنے خاندان کے لیے آپ دنیا ہوتے ہیں۔
والد کا دل قدرت کا سب سے بڑا شہکار ہے۔
ستارے اس وقت تک نہیں چمک سکتے جب تک اندھیرا نہ ہو جائے۔
آواز بننے کی کوشش کرومگر گونج کبھی نہ بنو۔
اپنے خواب پورا کرنے کے لیے سب سے بہترین حل ہے کہ جاگ جایئے۔
خوبصورتی کا المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی تصویر اسے اپنے اندر سمو نہیں سکتی۔
کرپشن ‘ ڈکٹیٹرکا سب سے مؤثر ہتھیار ہے۔
کرپشن برف کا وہ گولہ ہے کہ اگر اسے کھلا چھوڑ دیا جائے تووہ معاشرے سے بڑا ہو جاتا ہے۔
ریاست میں جتنی زیادہ کرپشن ہو گی ‘ اتنے ہی زیادہ کرپشن کو ختم کرنے کے قوانین بھی ہوں گے۔
طوفان سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس لیے کہ ہر طوفان کی ایک محدود مدت ہوتی ہے۔
بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں ‘ جو مہنگی ترین نیلامی کے سامنے کھڑے ہو سکتے ہیں۔
اقتدار حکمران کو کرپٹ نہیں کرتا ۔ بلکہ اقتدار چھن جانے کا خوف اسے کرپشن پر مجبور کر دیتا ہے۔
سونے کی چابی دنیا کا ہر تالا کھول سکتی ہے۔
خدشات ہمارے سب سے بڑے دشمن ہوتے ہیں ۔ اس لیے کہ ناکامی کے خوف سے اچھا کام کرنے سے روکتے ہیں۔
ہر انسان میں کبھی نہ کبھی آدھا غدار نمودار ہو جاتا ہے۔
ایک جھوٹ پوری دنیا کا چکر لگا کر واپس آ سکتا ہے۔ جب کہ سچ صرف اور صرف اپنے جوتوں کے تسمے باندھ رہا ہوتاہے۔
جھوٹ کو بار بار بولنے سے ‘ سچ کا گمان ہونے لگتا ہے ۔