ٹرمپ کے دنیا سے جنگیں ختم کرانے کے وعدے کیا ہوئے؟

صدر ٹرمپ کا انتخابی نعرہ تھا ’’میک امریکا گریٹ اگین‘‘ یعنی کہ امریکا کو دوبارہ عظیم ملک بنانا ہے۔ اس نعرے میں واقعی سچائی تھی کیوں کہ امریکا میں بعض ایسے صدور بھی برسر اقتدار آئے جن کے ادوار میں امریکا اندرونی طور پر کمزور ہوا اور عالمی سطح پر اس کی قدر و منزلت میں کمی آئی۔

اب صدر ٹرمپ نے امریکا کو ایک بار پھر عظیم ملک بنانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ وہ اس نعرے کی تکمیل کے لیے بڑی تندہی سے ایسے فیصلے اور اقدامات کر رہے ہیں جن سے امریکی معیشت اور قومی عظمت میں اضافہ ہو۔ اسی منصوبے کے تحت انھوں نے امریکی درآمدات پر مختلف ممالک پر پہلے سے عائد ٹیرف پر نظر ثانی کی ہے۔ ہر ملک کو اس کی امریکا سے وفاداری کی بنیاد پر ٹیرف عائد کیا جا رہا ہے۔

اکثر ممالک کو صدر ٹرمپ سے شکایت ہے کہ وہ ان پر زائد ٹیرف عائد کر رہے ہیں لیکن صدر ٹرمپ اپنی مرضی کے مطابق کام کر رہے ہیں، البتہ زائد ٹیرف عائد کیے جانے والے ممالک میں روس اور چین تو ضرور شامل ہیں کیونکہ ان سے امریکا کی ان بن چل رہی ہے مگر بھارت پر زیادہ ٹیرف کے نفاذ کا معاملہ سمجھ سے باہر ہے کیونکہ وہ تو خاص امریکی مراعات پر پلنے والا ملک ہے۔ اسے امریکا چین سے مقابلے کے لیے تیار کر رہا ہے۔ بہرحال یہ امر مودی کی ناکام خارجہ پالیسی کا واضح عکاس ہے۔ بس اب کچھ ہی ممالک سے ٹیرف کا معاملہ طے ہونا باقی رہ گیا ہے۔

 صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ وہ دنیا سے تمام لڑائیاں اور تنازعات کو ختم کرا دیں گے خیر سے انھوں نے پاک بھارت جنگ اور کمبوڈیا سے تھائی لینڈ کی جنگ ختم کرا دی ہے لیکن یہ وہ جنگیں تھیں جو ان کی صدارتی مہم کے دوران موجود نہیں تھیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ان کی ناک کے نیچے جو لڑائیاں اور تنازعات عرصے سے چل رہے ہیں اور جنھیں ختم کرانا ہی اصل مسئلہ ہے، جیسے غزہ کا قتل عام اور یوکرین کے بقا کی جنگ بدستور جاری ہے۔ دراصل یہی تو اس وقت وہ جنگیں ہیں جن کی وجہ سے پوری دنیا میں ہلچل مچی ہوئی ہے اور ہزاروں معصوم لوگ مارے جا رہے ہیں۔

صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ضرور ٹرمپ نے ان کے خاتمے کے لیے بیانات دیے تھے اور اقدامات بھی کیے تھے مگر اب تو وہ خاموش تماشائی بنے ان جنگوں کا نظارہ کر رہے ہیں۔ نیتن یاہو روز ہی فلسطینیوں کا قتل عام کر رہا ہے پوری دنیا نیتن یاہو سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ اب بس کرے۔ سلامتی کونسل میں بھی اس جنگ کو رکوانے کے لیے کئی ممبر ممالک کی جانب سے قراردادیں پیش کی جا چکی ہیں مگر انھیں ٹرمپ حکومت کی جانب سے ویٹو کر دیا گیا۔ یہ کہنا مذاق ہے کہ کہاں ٹرمپ نے جنگیں ختم کرانے کا وعدہ کیا تھا مگر اب وہ خود ہی اس قتل عام کو دراز کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔

ادھر یوکرین کی جنگ بھی جاری و ساری ہے اس معاملے میں بھی انھوں نے شروع میں ضرور پیش رفت دکھائی تھی مگر اب وہ سارا زور پیوتن پر لگا رہے ہیں کہ وہ حملے روکے مگر خود یورپی ممالک کو ترغیب دے رہے ہیں کہ وہ روس پر حملے کریں۔ اس سلسلے میں وہ جدید اسلحہ بھی فراہم کر رہے ہیں۔ اس طرح یہ جنگ ختم ہونے کے بجائے دوسرے ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ یوں دیکھا جائے تو ٹرمپ اپنے انتخابی وعدوں سے مکمل طور پر دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اب اصل مسئلہ دیرینہ عالمی تنازعات کا ہے جو دہائیوں سے جاری ہیں مگر ان کے خاتمے یا حل کی صورت نظر نہیں آ رہی ہے۔

ان میں سرفہرست کشمیریوں کی حق خود ارادیت کا معاملہ اور دوسرا فلسطینیوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا مسئلہ ہے جب سے ٹرمپ دوبارہ اقتدار میں آئے ہیں خیر سے کئی دفعہ کشمیر کے مسئلے کا ذکر کر چکے ہیں اپنے پہلے دور میں تو وہ اس مسئلے کو حل کرانے کے لیے مصالحت کار کا کردار ادا کرنے کے لیے بھی تیار تھے جس پر بھارت بہت ناراض تھا۔ بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کشمیر کے مسئلے پر اب تک پاکستان اور بھارت میں کئی جنگیں ہو چکی ہیں۔

حالیہ پاک بھارت جنگ کو ختم کرانے کا کریڈٹ ٹرمپ ضرور لے رہے ہیں مگر پاکستان نے اس دفعہ بھارت کو ایسی بری شکست سے دوچار کیا ہے کہ اس نے خود ہی جنگ بند کرنے کی درخواست کی تھی جسے پاکستان نے قبول کر لیا تھا، تاہم اس کا کریڈٹ ٹرمپ لے رہے ہیں جس کا وہ بار بار ذکر کرتے رہتے ہیں جس پر بھارت خاموش ہے۔ اس جنگ میں شکست پر بھارتی حزب اختلاف مودی پر سوالوں کی بوچھاڑ کر رہی ہے مگر وہ خاموش ہیں۔ اس وقت پاکستان امریکا کی گڈ بک میں ہے اور ٹرمپ کی مہربانیاں جاری ہیں۔ انھوں نے پاکستان کو بہت مناسب ٹیرف دیا ہے امریکی نائب صدر کا وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے اکثر ٹیلی فونک رابطہ رہتا ہے پھر ابھی اسحاق ڈار امریکا کا کامیاب دورہ کرکے واپس لوٹے ہیں انھوں نے بیان دیا ہے کہ اس وقت پاکستان کے امریکا سے مثالی تعلقات استوار ہو گئے ہیں۔

پچھلے دور میں ٹرمپ اکثر پاکستان پر گرجتے اور برستے رہتے تھے وہ افغان جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو کوئی وقعت نہیں دیتے تھے بلکہ انھوں نے تو یہاں تک کہا تھا کہ پاکستان نے افغانستان میں دہشت گردی کو ختم کرانے میں مدد کرکے کوئی احسان نہیں کیا کیونکہ امریکا نے اس کی بھاری اجرت بھی ادا کی ہے۔ بہرحال اس وقت ٹرمپ کی مہربانیوں سے ڈر لگتا ہے کہ وہ کہیں پاکستان پر امریکی مفاد کو کوئی نئی ذمے داری ڈالنے کے لیے راستہ ہموار نہ کر رہے ہوں۔ ظاہر ہے ان کی دشمنی روس سے جاری ہے پھر ایران بھی ان کے لیے ایک مسئلہ ہے جن سے وہ ایٹمی معاملے پر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔

ساتھ ہی ایران کو اپنی شرائط پر راضی کرنا چاہتے ہیں یہ کام وہ خود تو نہیں کر پا رہے ہیں اس لیے شاید وہ اس معاملے میں پاکستان کی مدد لینا چاہ رہے ہیں۔ ادھر وہ روس کو پھر گھیرنے کی پالیسی پر عمل کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے پاکستانی سرزمین ان کے لیے آئیڈیل ہے۔ اب کیا پاکستان پھر 60 کی دہائی جیسی امریکی غلامی کی زنجیروں میں جکڑنا پسند کرے گا؟ اب ہرگز ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

اب پاکستان عالمی سطح پر ایک نیوٹرل ملک کے طور پر خود کو متعارف کرا چکا ہے۔ صدر ٹرمپ نے حال ہی میں امریکی ایٹمی آبدوزوں کو چین اور روس کے قریب سمندر میں تعینات کرنے کا حکم دیا ہے یہ تو سراسر دونوں حریف ممالک کو طیش دلانے والی بات ہے بعض ماہرین کے مطابق یہ معاملہ سراسر عالمی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ صدر ٹرمپ کا جنگیں ختم کرنے کا وعدہ مذاق بن چکا ہے کاش کہ وہ اپنے قول و فعل کے تضاد پر غور کریں۔

اپنا تبصرہ لکھیں