مالیاتی خسارے میں کمی اور پاکستان کے لیے امریکی منڈیاں

حکام نے اس خبر پر خوشی کے شادیانے بجائے اور عوام کو یہ مژدہ سنا دیا کہ مالی خسارہ 9 سال کی کم ترین سطح پر آ گیا ہے۔ اس خبر کے پس منظر میں دکان پر کھڑے گاہک نے چینی کا بھاؤ پوچھا، دکاندار سے چینی کے نرخ سنتے ہی سر پر ہاتھ مارا، دونوں اداس تھے لیکن اس خبر کو سنتے ہی آئی ایم ایف کے چہرے چمک کر کھل اٹھے کیوں کہ انھیں معلوم تھا اس جملے کی ادائیگی کے لیے حکومت نے کن کن شرائط پر عمل درآمد کے لیے عوام کی جیب میں ہاتھ ڈالا ہوگا۔

قابل ستائش بات یہ تھی کہ یہ خسارہ قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی کا محض 5.38 فی صد رہا۔ حکومت کہہ رہی تھی کہ اس کی آمدن میں 36 فی صد اضافہ ہوا۔ بہت خوب، لیکن غریب عوام اپنی جیبیں ٹٹول رہی تھی کہ ہمارا خسارہ بڑھ گیا۔ پنشنرز حساب لگا رہا تھا کہ ہمیں صرف 7 فی صد دے کر حکومت نے شاید اپنا خسارہ کم کر لیا ہے۔

دکاندار گاہک سے کہہ رہا تھا خسارہ حکومت کے ایوانوں میں کم سے کم ہوا ہوگا اور یہ 9 سال کی کم ترین سطح کا اطلاق اشرافیہ کے لیے ہوگا۔ ہمارے یہاں تو مہنگائی میں اضافہ کرایوں میں اضافہ، دوا کی قیمتوں میں اضافہ ، ہم تو 9 سال سے زائد کا عرصہ گزرا ان اضافوں سے لڑ رہے ہیں اور حکومت کہہ رہی ہے کہ خسارے میں اضافہ نہیں ہوا، 9 سال کی کم ترین سطح پر مالی خسارہ آ چکا ہے۔

خسارے کی بات ہوگی تو سب سے اہم ترین تجارتی خسارے کی بات اس مرتبہ کچھ یوں رہی۔ نئے مالی سال کا ایک ماہ گزر گیا اور ماہ جون کی نسبت ماہ جولائی میں جون کے مقابلے میں تجارتی خسارے میں 16 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ یعنی ابھی نئے مالی سال کا آغاز ہوئے ایک ماہ گزرا اور خسارے میں اضافہ بھی ہو گیا۔ مالیاتی خسارہ 9 سال کی کم ترین سطح پر آ چکا ہے لیکن قرضوں میں زبردست اضافہ ہوا۔ سونے کے بھاؤ میں اضافہ ہوا۔ کرایہ مکان میں اضافہ ہوا۔ میڈیکل بلز میں اضافہ ہو گیا۔ چینی فی کلو 140 روپے سے 210 روپے تک بیچنا۔ غریبوں کے لیے مہنگائی لیکن مافیاز اس میں بہت سارے گروپس کی شمولیت ہو چکی ہے۔ ان کی آمدن میں اضافہ ہی اضافہ، 70 روپے فی کلو کے حساب سے اربوں روپے کا فائدہ ہر ایک کو اس کے حصے کے مطابق روپیہ مل جاتا ہے۔

گزشتہ دنوں بتائے گئے چینی کے ہیر پھیر کے نتیجے میں 300 ارب روپے ان لوگوں کی جیب میں جا کر ان کی آمدن میں اضافہ ہو چکا ہے۔ اب پاکستان میں چینی کی قیمت کم ہوتی ہے تو ہوتی رہے۔ انھوں نے اپنی آمدن میں اچھا خاصا اضافہ کر لیا۔ پچھلے مالی سال میں چینی ایکسپورٹ بھی ہوئی تھی اور اب امپورٹ بھی ہوگی 300 ارب روپے پہلے کما لیے تھے، اب اور کمائیں گے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مالیاتی خسارے میں کمی سے عوام کو کیا فائدہ ہوگا۔ غریب عوام کا یہ حال ہے کہ غریب کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے، عوام کی ایک بڑی تعداد بیرون ملک جانے کے لیے پر تولے کھڑی ہے۔ حکومت کی جانب سے ترقیاتی پروجیکٹس میں کمی آ چکی ہے۔

پاکستان کو اب مالی خسارے میں کمی کے بیانیے سے آگے بڑھنا ہوگا۔ نوجوانوں کو روزگار دینے کے مواقع میں اضافہ کرنا ہوگا، ہر سال لاکھوں افراد بطور بے روزگار شامل ہو جاتے ہیں۔ بیرون ملک جانے والے خواہش مند افراد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کیوں کہ نوجوان جب ڈگری ہاتھ میں لے کر در در پھرتا ہے اور مایوس ہو کر لوٹتا ہے تو بالآخر یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ اب وہ بیرون ملک چلا جائے گا۔

بھارت پر ٹرمپ کی تجارتی پابندیوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے کیوں کہ امریکا کے نزدیک بھارت اچھا تجارتی پارٹنر نہیں رہا ہے۔ اس لیے اس پر مجموعی طور پر 50 فی صد ٹیرف لگا دیا گیا ہے۔ حالیہ برسوں میں بھارت روس سے بہت بڑے پیمانے پر تیل خرید رہا ہے اس ٹیرف کے نتیجے میں مختلف شعبے شدید متاثر ہوں گے جن میں ٹیکسٹائل، ادویات، آئی ٹی، ہارڈویئر، زرعی مصنوعات وغیرہ۔ بعض اندازوں کے مطابق بھارت کی 90 ارب ڈالر کی برآمدات متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

امریکا جس نے پاکستان کے مقابلے میں بھارت سے ہمیشہ دوستی کو بڑھاوا دیا اور اسے اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر کہا، آج اسی بھارت پر 50 فی صد ٹیرف لگا رہا ہے۔ امریکا دنیا میں تجارت کی ایک نئی صف بندی کر رہا ہے اور اس میں ٹریڈ پارٹنرز کی زیادہ اہمیت ہوگی۔ اب دنیا میں معیشت کی جنگ رچائی جا چکی ہے اور اسی ملک کا پلڑا بھاری ہوگا جس کی معیشت کرنسی برآمدات سب کی سب بھاری ہوں۔ امریکا اب اپنا راج جتانے کے لیے نیو ورلڈ آرڈر کے بجائے نیا معاشی آرڈر جاری کر چکا ہے۔

تجارت میں ہمیں کچھ دو، ہم تمہیں بہت کچھ دیں گے، پاکستان کی حکومت نے اس پیغام کی روح کو سمجھ لیا اور امریکا سے تجارتی معاہدہ کرلیا ہے۔ لیکن اب حکومت کو اپنی کاروباری برادری کو ساتھ لے کر امریکی منڈیوں میں اترنا ہوگا۔ جہاں کراچی کا مل اونر، لاہور کی فیکٹری کا مالک، فیصل آباد کی مل کا سیٹھ یہ سب مل کر ہی امریکا کے بڑے بڑے تاجروں، بزنس مینوں، امپورٹرز سے بزنس ڈیل کریں گے۔ کیوں کہ انھی پاکستانی سیٹھوں کا کام ہے جو اپنے ملک میں کاروبار بھی لا سکتے ہیں اور ملک کو اربوں ڈالر کما کر دے سکتے ہیں۔ کیونکہ امریکا کے تجارتی اتحادیوں کی فہرست میں پاکستان کا اب اہم کردار نظر آ رہا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں