ہم انسان نہیں ہندسے ہیں

عالمی ادارہِ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر تیدروس گیبریسس نے وارننگ دی ہے کہ جنگ بندی کے باوجود غزہ کی آبادی کی جسمانی و ذہنی صحت کا مسئلہ نسل در نسل چل سکتا ہے۔

وہاں صحت کے ڈھانچے کے نام پر کچھ نہیں بچا۔پوری آبادی ذہنی ٹراما میں مبتلا ہے اور یہ حالات محض دوا دارو اور ظاہری علاج سے آگے کا مرحلہ ہے۔

اگرچہ اسرائیل نے جنگ بندی کے بعد کچھ میڈیکل سپلائز کو اندر پہنچانے کی اجازت دی ہے۔مگر یہ اس قدر ناکافی ہیں کہ اس سے مجموعی مسئلے کی سنگینی کم نہیں ہو سکتی۔

غزہ کو اس وقت ایک بڑے غذائی اور طبی انجکشن کی ضرورت ہے۔ جتنی امداد پہنچانے کی اب تک اجازت دی گئی ہے وہ مجموعی ضرورت کا محض دس فیصد ہے۔

حالانکہ امریکا نے جو بیس نکاتی سمجھوتہ کروایا ہے اس میں واضح طور پر وعدہ کیا گیا ہے کہ انسانی امداد کی فراہمی بلا روک ٹوک جاری رہے گی اور اس عمل پر فریقین کے باہمی اختلافات اثرانداز نہیں ہوں گے۔

ڈاکٹر تیدروس کا کہنا ہے کہ بھلا کون سا ایسا انسانی مسئلہ ہے جو اس وقت غزہ کو درپیش نہیں۔ بھک مری ، طبی امداد اور انخلا کے منتظر ہزاروں زخمی، صاف پانی اور صفائی اور اسپتالوں کا تہہ و بالا نظام،پوری آبادی ہر طرح کی بیماریوں بالخصوص جلدی امراض کی زد میں ہے ۔

اس پر طرہ یہ کہ امدادی رسد بار بار کسی نہ کسی جواز کے تحت معطل ہو رہی ہے اور جو مدد متاثرین تک پہنچ بھی رہی ہے وہ ضرورت کے مقابلے میں انتہائی ناکافی ہے۔

ڈاکٹر تیدروس کے بقول اگر آپ قحط سالی اور ذہنی صحت کے مسائل یکجا کر کے دیکھیں تو اس کے مجموعی اثرات جانے کتنی نسلوں تک محسوس ہوتے رہیں گے۔

لہٰذا انسانی امداد کی ترسیل کے معاملے کو کبھی ہتھیار نہیں بنانا چاہیے۔ امریکا جنگ بندی سمجھوتے کا بنیادی ضمانتی ہے۔ یہ اس کی ذمے داری ہے کہ وہ تمام فریقوں کو اس سمجھوتے کے تحت عائد ذمے داریوں کا پابند رکھے۔

اس دوران عالمی ادارہِ خوراک کا کہنا ہے کہ جنگ بندی معاہدے کے تحت روزانہ دو ہزار ٹن غذائی اور دیگر امدادی سامان سے بھرے چھ سو ٹرکوں کو غزہ میں داخلے کی اجازت دی گئی ہے۔ عملاً دو سو سے تین سو ٹرک ہی داخل ہو پا رہے ہیں۔

چار سرحدی گذرگاہوں میں سے دو ( کارم شلوم اور کسوفم ) کھلی ہوئی ہیں اور ان پر بھی تفصیلی چھان پھٹک کو جواز بنا کے مزید تاخیر پیدا کی جا رہی ہے۔جب کہ سب سے بڑی رفاہ کراسنگ مسلسل بند ہے۔

حالانکہ تمام سرکردہ عالمی امدادی تنظیمیں جنگ بندی کے ذمے دار ثالثوں سے لگاتار اپیل کر رہی ہیں کہ تمام گذرگاہیں بلا روک ٹوک کھولی جائیں۔یہ سب راستے اسرائیل کے کنٹرول میں ہیں۔

ڈاکٹر تیدروس نے اقوامِ متحدہ کی امدادی ایجنسی برائے فلسطین انرا کا نام لیے بغیر کہا کہ ہر امدادی ادارے کو کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔کیونکہ ان میں سے بعض اداروں ( انرا ) کا جتنا زمینی تجربہ ہے کسی اور کا نہیں۔

واضح رہے کہ اٹھہتر برس سے فلسطینیوں کی ہر طرح کی مدد کرنے والے ادارے انرا کو اسرائیل نے ’’ دھشت گرد تنظیم ‘‘ قرار دے رکھا ہے اور امریکا بھی اس معاملے میں اسرائیل کا حامی ہے۔

انرا ذرایع کا کہنا ہے کہ اس وقت اس کی جمع کردہ امداد رفاہ کراسنگ کے اس پار مصری علاقے میں پڑی پڑی خراب ہو رہی ہے۔یہ امداد غزہ کی آبادی کی کم ازکم دو ماہ کی ضروریات پورا کر سکتی ہے۔اور اس کی مقدار چھ ہزار ٹرکوں کے برابر ہے۔

عالمی ادارہِ صحت کے ڈائریکٹر جنرل تیدروس نے بی بی سی ریڈیو فور کو انٹرویو دیتے ہوئے مزید کہا کہ اسرائیل نے ہماری بہت سی طبی رسد غزہ میں پہنچنے سے اس جواز کے تحت روک رکھی ہے کہ کچھ اشیا کا دوہرا استعمال ( فوجی و سویلین ) ہو سکتا ہے۔

اب آپ ہی بتائیں کہ کوئی بھی عارضی فیلڈ اسپتال بنانے کے لیے ترپالیں اور بانس درکار ہیں۔اگر بانس یہ کہہ کر روک لیا جائے کہ اس کا دوہرا استعمال ہو سکتا ہے تو ہم فیلڈ اسپتال کا خیمہ کیسے تانیں گے ؟

ڈاکٹر تیدروس نے بتایا کہ اب تک لگ بھگ سات سو زخمی بیرونِ ملک منتقل نہ کیے جانے کے سبب مر چکے ہیں۔ہزاروں دیگر منتقلی کے منتظر ہیں۔مگر گزشتہ دو ہفتے سے یہ کام اس لیے ٹھپ ہے کیونکہ اسرائیل میں دو ہفتے کی مذہبی چھٹی کے سبب متعلقہ ادارے بند رہے ہیں اور ان کے کسی متبادل کا بھی انتظام نہیں کیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ بہت سے شدید زخمی زمینی راستے سے منتقل نہیں کیے جا سکتے مگر ان کے لیے مطلوبہ تعداد میں پروازیں میسر نہیں۔

اقوامِ متحدہ کا اندازہ ہے کہ غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے کم ازکم ستر ارب ڈالر درکار ہیں۔ڈاکٹر تیدروس کا کہنا ہے کہ غزہ کے طبی ڈھانچے کی بحالی کے لیے کم از کم سات ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔

دس اکتوبر سے ہونے والی جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی حملوں میں اب تک سو سے زائد مزید فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ڈاکٹر تیدروس نے غزہ میں جنگ بندی کے باوجود شہریوں کی ہلاکت پر دکھ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ امن کا اعلان سن کر خوشی سے اچھل رہے تھے ان میں سے کئی یہ سننے کے بعد قتل ہو گئے کہ اب امن قائم ہو گیا ہے۔

غزہ میں مقیم ایک رائٹر سارہ عواد لکھتی ہیں کہ ’’ اسرائیل موجودہ جنگ بندی کو سوئچ آن اور آف کی طرح استعمال کر رہا ہے۔ایک دن کسی بات کو بہانہ بنا کر بمباری کر دو اور گزشتہ روز نہ کرو۔

لوگ پھر امن کے دھوکے میں آ کر باہر نکلنا شروع کریں تو پھر اچانک بمباری کر دو۔یعنی فلسطینی بھی چن چن کے مارے جاتے رہیں اور دنیا بھی اس وہم میں مبتلا رہے کہ جنگ بندی قائم ہے۔

سارہ کے بقول کسی بھی فلسطینی کو یقین نہیں کہ جنگ بندی کا دھوکا کب تک چلے گا اور کب بموں کی برسات ہونے لگے گی۔یہ جنگ بندی نہیں مسلسل قتلِ عام میں محض عارضی وقفہ ہے۔

ہم اس وقت تک قاتل کے رحم و کرم پر ہیں جب تک دنیا باعزت زندگی گذارنے کا ہمارا بنیادی حق تسلیم نہیں کر لیتی اور اس حق کو قاتل سے منوا نہیں لیتی۔تب تک ہم انسان نہیں میڈیا کے لیے محض چند سو ، ہزار ، لاکھ کے ہندسے ہیں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

اپنا تبصرہ لکھیں