پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان کے علاقے میں سرحد سے فتنۃ الخوارج کی دراندازی کی کوشش ناکام بناتے ہوئے 25 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا، جب کہ فائرنگ کے تبادلے میں پاک فوج کے 5 جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔
یہ واقعہ نہ صرف سرحدی دفاع کے الفاظ کو عملی معنی دیتا ہے بلکہ اس عزم کا بھی مظہر ہے کہ پاکستان اپنی سرحدوں کے تحفظ کے لیے اوالعزم اور کسی قسم کے سودے یا سمجھوتے کے بغیرکھڑا ہے۔
سیکیورٹی فورسز کی جارحانہ کارکردگی اور جان نثاری کے بلند جذبے نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ جب قوم متحد ہوکر وطن کی عزت اور سالمیت کے سامنے کھڑی ہو تو دشمن کے ناپاک عزائم زمین بوس ہو جاتے ہیں۔
اس دوران یہ بات تکلیف دہ ہے کہ استنبول میں پاک افغان مذاکرات کے باوجود فتنۃ الخوارج کی دراندازی کی کوششیں جاری ہیں۔ مذاکرات کا مقصد اگر افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکنا ہے تو محض سفارتی الفاظ کافی نہیں، عملی اور ٹھوس اقدامات درکار ہیں۔
پاکستان کی جانب سے جن خدشات کا اظہارکیا گیا ہے کہ طالبان کسی اور ایجنڈے پر چل رہے ہیں، وہ نگرانی اور اکتسابِ حقیقت کی ضرورت کو بڑھاتے ہیں۔ یہ ایجنڈا اگر افغانستان، پاکستان اور خطے کے استحکام کے خلاف ہے تو اسے فوری طور پر بے نقاب کر کے روکا جانا چاہیے۔
پاکستان کے افغانستان کے ساتھ تعلقات پیچیدہ صورت حال کا شکار ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ لبریشن آرمی جیسے کالعدم گروپوں، جن کے سرحد پار روابط ہیں، کی بڑھتی ہوئی دہشت گردی ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں اور شہریوں کی اموات کا سبب بن رہی ہے۔
دوسری جانب افغانستان سے ٹی ٹی پی یا بی ایل اے کے خلاف مطلوبہ ردعمل حاصل کرنے میں ناکامی ہمارے تعلقات میں خلیج پیدا کر رہی ہے۔پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی سب سے بنیادی حقیقت ہمیشہ 2600 کلومیٹر طویل سرحد رہی ہے۔
دوحہ معاہدہ محض ایک معاہدہ نہیں بلکہ ایک باقاعدہ پراسس تھا جس کو بتدریج آگے بڑھنا تھا۔ معاہدے میں طے ہوا تھا کہ افغانستان کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دی جائے گی، جب کہ دوحہ معاہدے میں ٹی ٹی پی کا بھی حل نکالنا چاہیے تھا۔
اس معاہدے کو پبلک نہیں کیا گیا بلکہ پاکستان کو بھی آؤٹ رکھا گیا۔ پاکستان پورے دوحہ معاہدے کو سہولت کاری کے ذریعے آگے ضرور لے کرگیا اور سہولت کارکا کردار ادا کیا جس کے دو مقاصد تھے ایک امن ہو تو پاکستان کے لیے بہتر ہوجائے اور دوسرا افغانستان میں لڑائی ختم ہوجائے۔
افغان طالبان سے وابستہ تمام امیدیں اُن کے اقتدار میں آنے کے چند ماہ بعد ہی ختم ہونا شروع ہو گئی تھیں،کیونکہ اب بھی ٹی ٹی پی اور دیگر عسکری تنظیموں کے جنگجو حملوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی جانب سے جولائی 2024 کو رپورٹ میں کہا گیا کہ طالبان ٹی ٹی پی کو دہشت گرد گروپ تسلیم نہیں کرتے اور ان کے آپسی تعلقات انتہائی قریبی ہیں اور افغان طالبان پر ٹی ٹی پی کی امداد کا قرض ہے۔
بین الاقوامی طور پر دہشت گرد قرار دیے گئے، اس گروپ کے افغانستان میں چھ سے ساڑھے چھ ہزار جنگجو موجود ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ القاعدہ کے ارکان جن کے افغان طالبان کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں، وہ ٹی ٹی پی کو پاکستان میں کارروائیوں کے لیے مدد فراہم کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، ٹی ٹی پی نے بتدریج پاکستان کے خلاف حملوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اس وقت ٹی ٹی پی کی قیادت کی اکثریت افغانستان میں موجود ہے اور وہ افغانستان سے ہی پاکستانی ریاست کی سیکیورٹی فورسز اور چین کے پاکستان میں موجود انسٹالیشنز پر حملے کرنے میں ملوث ہیں، ان عوام دشمن قوتوں اور ان کی ریاست کے آلہ کار کے طور پر موجودگی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ افغانستان سمیت پاکستان کے تمام حصوں بالخصوص پشتون علاقوں میں ان کے خلاف شدید نفرت اور غم و غصہ موجود ہے، اگر ماضی میں سماج کے پسماندہ حصوں میں ان کے لیے کوئی حمایت تھی تو اب وہ بھی ختم ہو چکی ہے۔
اسی لیے 2021 میں ٹی ٹی پی کو جب خیبر پختون خوا کے علاقوں میں انسٹال کرنے کی کوشش کی گئی تو عوامی سطح پر ان کے خلاف شدید نفرت اور غم و غصے نے عوامی تحریکوں کی صورت میں اپنا اظہارکیا جس کی بنیاد پر ٹی ٹی پی اور ان کے آقاؤں کو منہ کی شکست کھانی پڑی، لیکن آج بھی یہی دہشت گرد گروپ پاکستان بالخصوص خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھارت کی پشت پناہی سے دوبارہ دہشت گردی کے واقعات کروانے میں مصروفِ عمل ہیں۔
ٹی ٹی پی کے خلاف افغان طالبان اقدامات کرنے سے گریزاں ہیں اور انھیں پاکستان میں اپنی مداخلت کے آلہ کارکے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
افغان طالبان کا ایک گروہ یہ سمجھتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو ان کی تحریک اور عالمی جہادی تحریک کا ایک حصہ ہیں۔ یہ گروہ عددی اعتبار سے کافی بڑا ہے اورگزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستان میں ٹی ٹی پی کی میزبانی اور قربانیوں کو بھولنے کو تیار نہیں۔
بالخصوص حقانی نیٹ ورک کے ساتھ تحریک طالبان پاکستان کے قریبی روابط رہے ہیں اور حقانی نیٹ ورک ٹی ٹی پی کے خلاف کسی بھی کارروائی کے حق میں نہیں ہے۔
اس کے علاوہ طالبان کے قندھاری اورکابل دھڑوں کے آپسی اختلافات بھی موجود ہیں اور وہ لوٹ مار میں زیادہ حصہ بٹورنے اور ٹی ٹی پی پر زیادہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ یہ تضادات موجودہ صورتحال میں کسی طور پر بھی حل نہیں ہوں گے بلکہ لوٹ مار پر یہ لڑائی شدت اختیار کرتی چلی جائے گی۔
اس وقت طالبان کی تمام تر دھڑے بندیوں میں منقسم ہونے کے ڈر سے ایک چیز پر مکمل اتفاق ہے اور وہ افغانستان میں جبرکے سلسلے کو جاری رکھا جائے کیونکہ طالبان کے پاس اس وقت جبر سے ہٹ کے ان کے پاس افغانستان کے تقریبا پانچ کروڑ عوام کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے مگر ایک طرف اگر طالبان جبر کر رہے ہیں تو دوسری جانب عوامی مزاحمت بھی اپنا اظہار کر رہی ہے۔
افغانستان میں تقسیم در تقسیم کی سیاست اِس وقت کے حکمرانوں سمیت تاریخی طور پر پرانے حکمرانوں کے حق میں ہی رہی ہے۔ دوسری جانب قوم پرستی کے نظریات اس وقت تاریخی طور پر متروک ہو چکے ہیں جو کہ اب نسل پرستی کی شکل اختیارکرتے جا رہے ہیں۔
یہ نظریات ایک طرف اگر حکمران طبقے کے نظریات ہیں تو دوسری جانب انھی نظریات کو عملی جامہ پہنانا حکمران طبقے کی خدمت کرنے کے مترادف ہے۔
ثالثی اور بین الاقوامی معاہدے اعتماد سازی کے لیے ضروری ہیں، مگر جب ایک ریاست رسمی طور پر امن کا حامی بن کر بیک وقت جارحانہ یا خفیہ کارروائیوں کو سہارا دیتی ہے تو یہ رویہ منافقت کا درجہ اختیارکرلیتا ہے۔
منافقت کی بنیاد پر مبنی خارجہ پالیسی دیرپا نہیں رہ سکتی، اس کے نتیجے میں خطے میں عدم اعتماد بڑھتا ہے، اسٹرٹیجک توازن متاثر ہوتا ہے اور عسکری تقابل کی راہیں کھلتی ہیں۔
یہی وہ مقام ہے جہاں عالمی برادری، علاقائی تنظیمیں اور بین الاقوامی ثالثوں کی ذمے داری بڑھ جاتی ہے۔ ثالثی کا مطلب صرف دستخط کروانا نہیں، بلکہ یقین دہانی کرانا بھی ہے کہ طے پانے والی شرائط پر عمل درآمد ہوگا اور اگرکوئی فریق ان شرائط کی خلاف ورزی کرے تو مناسب اور موثر میکانزم موجود ہوں گے۔
افغان طالبان کی عبوری حکومت کسی اور ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ یہ وصف اطمینان بخش نہیں ہے، جب مذاکرات کا مقصد خطے میں امن و استحکام لانا ہو تو سامنے والا فریق ملکی اور علاقائی مفادات کے مطابق جوابدہ ہونا چاہیے،اگر افغانستان کی خارجہ پالیسی کسی تزویراتی ذہنیت کے تحت پڑوسی ممالک کے تحفظات کو خاطر میں نہ لائے بلکہ انھیں نٹ کھٹ بیانیوں اور تنازعہ انگیز عناصرکے ذریعے کم کر ڈالے، تو اس کے مضر اثرات محض دو ملکوں کا معاملہ نہیں رہے گا بلکہ پورے جنوبی ایشیا کا امن و ثبات خطرے میں پڑ جائے گا۔
اگر افغانستان کسی بھی صورت میں پاکستان مخالف عناصرکے لیے محفوظ پناہ گاہ کا کردار ادا کرتا رہے یا بعض قوتیں اسے بطور پراکسی استعمال کریں تو یہ خطے میں امن و امان کے لیے خطرہ بن سکتا ہے، اگر ثالث محض رسمی تقریبات اور دستخطوں کا انتظام کر کے اپنے آپ کو مؤثر سمجھنے لگیں تو وہ اصلی مسئلے کی اصل جڑ تک نہیں پہنچ پائیں گے۔
ثالثی کا حقیقی مقصد تو یہ ہے کہ متنازع امور کی بنیادی وجوہات کو دورکیا جائے، سیکیورٹی، معیشت اور سماجی محاذوں پر ایسے نظام بنائے جائیں جو کثیرالعلاقائی استحکام کو یقینی بنائیں۔
افغانستان سچ میں امن چاہتا ہے تو اسے خود بھی داخلی سطح پر شفافیت، ایک وفاقی روئے کار اور غیر ریاستی عناصر کی سرکوبی کے لیے عملی قدم اٹھانا ہوں گے۔ ورنہ یہ خدشہ وجود میں رہے گا کہ مذاکرات کے پردے تلے ہونے والی منافقانہ پالیسیاں خطے کی خوش حالی اور بقاء کو دائمی خطرے میں ڈال دیں گی۔ حکمت عملی، شراکت داری اور علاقائی مفادات کے احترام کا راستہ امن، ترقی اور باہمی اعتماد کے قیام کی جانب لے جائے گا۔
