کراچی میں گورنر کے پی ایڈوائزر سے گاڑی چھن گئی، 9 ماہ میں 1600 سے زائد گاڑیاں چھنی یا چوری ہوئیں

کراچی میں کلاشنکوف کے زور پر کارروائیاں کرنے والے گینگ نے گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی کے میڈیا ایڈوائزر سے گاڑی چھین لی۔

کراچی میں جرائم کی وارداتیں بتدریج جاری ہیں اور اب کار لفٹر کا ایک گروہ جدید اسلحے کے ساتھ کارروائیاں کررہا ہے۔ گورنر خیبرپختونخوا کے میڈیا ایڈوائزر علی ایوب کو 22 اکتوبر کی رات 9 بج کر 31 منٹ پر کلاشنکوف بردار گینگ نے لوٹا۔

ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے علی ایوب نے بتایا کہ ’میں اپنے دوست کے ساتھ ضلع وسطی کے علاقے گلبرگ طاہر ولا چورنگی کے قریب سے گزر رہا تھا، اس دوران ہماری گاڑی کو گھیرا گیا‘۔

انہوں نے بتایا کہ تقریبا 4 لوگ واردات میں شامل تھے اور وہ خود بھی گاڑیوں میں سوار تھے۔

علی ایوب کے مطابق ہماری گاڑی کے اطراف میں چار لوگ کھڑے تھے جن کے ہاتھ میں کلاشنکوف سمیت مختلف اسلحہ تھا، انہوں نے گاڑی روک کر ہمارے بارے میں پوچھا اور پھر تعارف کروانے پر ملزمان دونوں سے موبائل، پرس، نقدی چھین کر فرار ہوگئے۔

اس واقعے کا مقدمہ تھانہ گلبرگ میں خیبرپختونخوا کے میڈیا ایڈوائزر کی مدعیت میں 22 اکتوبر کو ہی درج کیا گیا تاہم 5 روز گزر جانے کے باوجود کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی۔

کراچی میں اسلحے کے زور پر گاڑیاں، موبائل، نقدی یا موٹرسائیکلیں چھینا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق رواں سال کے 9 ماہ میں اب تک شہر میں اسلحے کے زور پر کروڑوں روپے مالیت کی 241 گاڑیاں چھن چکی ہیں، اس کے علاوہ چوری ہونے والی گاڑیوں کی تعداد 1 ہزار 400 سے زائد ہے۔

پولیس حکام کے مطابق چھینی گئی یا چوری ہونے والی گاڑیوں میں سے ریکور ہونے کی شرح پانچ سے دس فیصد ہے۔

گورنر خیبرپختونخوا کے میڈیا ایڈوائزر کی گاڑی کے حوالے سے پولیس کا کہنا ہے کہ سیاہ رنگ کی کرولا گاڑی کی شکایت درج کرنے کے بعد ریکوری کیلیے اقدامات کیے گئے ہیں اور امید ہے کہ جلد اس میں کامیابی ملے گی۔

فوٹو: فائل

نارتھ کراچی سیکٹر الیون اے کے رہائشی طارق بھی ایسے ہی متاثرہ شخص ہیں جنہوں نے بتایا کہ اُن کی گاڑی گھر کے باہر سے چوری ہوئی تاہم 7 ماہ گزر جانے کے بعد کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی۔ اُن کے مطابق مقدمہ واقعے کے چند گھنٹوں بعد ہی درج کرادیا گیا تھا تاہم پولیس کی جانب سے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔

ڈیفنس کے رہائشی ایاز منگھوپیر روڈ پر اسلحے کے زور پر گاڑی سے محروم ہوئے، وہ بنیادی طور پر کاروباری شخصیت بھی ہیں۔ اُن کے مطابق گاڑی چھن جانے کے بعد صرف یقین دہانیوں تک ہی کام چلتا رہا اور پھر اب تو سمجھیں سب مقدمے یا واقعے کو ہی بھول چکے ہیں۔

یہ گاڑیاں کہاں جاتی ہیں؟

اے وی سی ایل سی کے مطابق شہر سے چھننے والی بیشتر گاڑیاں بین الصوبائی گروہ کی جانب سے کی جاتی ہیں جو انہیں بلوچستان لے جاکر فروخت کرتے اور پھر یہ باقاعدہ استعمال بھی ہوتی ہیں۔

گاڑیوں کی ریکوری کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ ’اس معاملے پر میکنزم بنانے کی ضرورت ہے تاہم کچھ ایسی ناقابل بیان وجوہات بھی ہیں جس کی بنیاد پر چوری شدہ یا چھینی ہوئی گاڑی مالک کو واپس نہیں مل پاتی‘۔

کراچی کے حوالے سے متحرک رہنے والے سوشل میڈیا ایکٹویسٹ جنید رضا نے سوال اٹھایا ہے کہ ’شہر میں لگنے والے سیف سٹی کیمرہ جن سے آن لائن چالان مرتب کیے جائیں گے کیا اُن کی مدد سے گاڑیوں کو ریکور نہیں کیا جاسکتا؟۔

فروری 2022 میں اُس وقت کے اے وی ایل سی کے ایس ایس پی بشیر احمد بروہی نے انسپکٹر جنرل پولیس مشتاق مہر کو ایک خط لکھا تھا جس میں بتایا تھا کہ کراچی سے چھینی گئی گاڑیاں بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی کے علاقے سوئی منتقل کی گئیں اور وہاں پر ان کی خرید و فروخت جاری ہے۔

پولیس کی تفتیش کے دوران یہ انکشاف بھی ہوا تھا کہ کراچی سے چھینی گئی گاڑیاں کمپنیوں کو فروخت کی گئیں ہیں، یہ انکشاف شاہراہ نورجہاں پولیس اسٹیشن کی حدود سے گرفتار ہونے والے مشتبہ ملزم بافو بگٹی نے دوران تفتیش کیے تھے۔

اس کے علاوہ رواں سال مارچ میں ڈیفنس سے چھینی گئی مہنگی ترین گاڑی کے مقدمے کی تحقیقات کے دوران ایک پولیس اہلکار بھی گرفتار ہوا جو بین الصوبائی گروہ کے ساتھ کام کرتا تھا۔

پولیس کے مطابق چند ماہ کے دوران مہنگی ترین گاڑیاں چھینے کے ایک ہی طرز کے تین واقعات پیش آئے تھے، کراچی پولیس نے بتایا تھا کہ مبینہ سرغنہ اور اُن کا گینگ یہ چوری شدہ لگژری گاڑیاں کراچی سے بلوچستان لے جا کر فروخت کر دیا کرتے تھے۔

اپنا تبصرہ لکھیں