پاکستان اور سعودی عرب میں طویل مدتی اقتصادی شراکت داری کا معاہدہ طے پا گیا، سی پیک منصوبوں میں بھی اقتصادی شراکت داری معاہدے کا حصہ ہوگی۔ معاہدے پر دستخط وزیراعظم شہباز شریف اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے درمیان ملاقات کے دوران کیے گئے۔ سعودی عرب ڈیمز، ٹرانسمیشن لائنز اور دیگر منصوبوں میں سرمایہ کاری کرے گا، جب کہ نجی شعبوں کی آپس مین بزنس کونسل بھی تشکیل دی جائے گی۔
پاکستان اور سعودی عرب نے اپنے تاریخی برادرانہ تعلقات کو مستقل معاشی شراکت داری میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے نجی شعبے کے اشتراک، علاقائی استحکام اور تجارتی و سرمایہ کاری تعلقات کو مزید فروغ حاصل ہوگا۔ بلاشبہ پاک سعودی تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔
یہ محض ایک ریاستی تعلق نہیں بلکہ ایک ایسا رشتہ ہے جس کی جڑیں عوام کے دلوں میں پیوست ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان کے حالیہ دورہ سعودی عرب میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات ایک نئے دور کی شروعات ہے۔ سعودی قیادت نے پاکستان کو سرمایہ کاری کے بڑے مواقع فراہم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ خاص طور پرگوادر اور سی پیک منصوبوں میں سعودی شمولیت نہ صرف پاکستان کی معیشت کے لیے فائدہ مند ہوگی بلکہ خطے میں سعودی اثر و رسوخ کو بھی بڑھائے گی۔
پاکستان کی زرخیز زرعی زمین، افرادی قوت، معدنی وسائل، متحرک آئی ٹی سیکٹر اور شمسی ہائیڈرو اور ونڈ جیسی قابل تجدید توانائی کے ساتھ ساتھ ملک میں کان کنی کے شعبے میں بالخصوص تانبا، سونا اور دوسری قیمتی معدنیات سے فوائد حاصل کرنے کے بہت زیادہ مواقع پائے جاتے ہیں، جن سے ابھی تک استفادہ نہیں کیا گیا ہے۔
دونوں ملکوں کو دستیاب وافر مواقعوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے کیونکہ ولی عہد محمد بن سلمان کے وژن 2030 کے تحت پاکستان کو سعودی عرب کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے بے شمار مواقع فراہم کیے گئے ہیں جن میں پاکستانی کارکنان کی سعودی عرب میں جاری بڑے منصوبوں پر ملازمت بھی شامل ہے۔ سعودی عرب نے قرض اور خام تیل کی قیمت کی مؤخر ادائیگی کے ذریعے ہمیشہ پاکستان کی معیشت کو سہارا دیا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات ہر دور اور ہر زمانے میں مضبوط رہے ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون کی بھی ایک لمبی تاریخ ہے۔ دفاعی اور اسٹرٹیجک تعلقات کے حوالے سے پاک فوج اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی تعاون بھی کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ سعودی افواج کی تربیت، مشترکہ مشقیں اور سیکیورٹی کے مختلف شعبوں میں تعاون ہمیشہ جاری رہا ہے۔ خطے کے بدلتے حالات میں یہ تعاون مزید اہمیت اختیار کر رہا ہے۔
عالمی سیاست میں ملکوں کے باہمی تعلقات مفادات کے گرد گھومتے ہیں اگرچہ اس میں کسی ملک کو بھی استثنا حاصل نہیں ہے مگر مسلم دنیا میں سعودی عرب کو جو خصوصی مقام حاصل ہے اس کی بدولت پاکستان سمیت مسلم ممالک کے عوام، سعودی عرب کے ساتھ جذباتی لگاؤ، محبت و احترام کا تعلق رکھتے ہیں۔
اس فیکٹر کی بنیاد پر پاک سعودی باہمی تعلقات بین الاقوامی سیاست کی حرکیات سے بہت حد تک مبرا ہیں اور وقت کی اونچ نیچ دونوں برادر ملکوں کے قریبی تعلقات میں دراڑ نہیں ڈال سکی۔پاکستان، سعودی عرب کو اپنا اسٹرٹیجک اتحادی سمجھتا ہے ۔ دونوں فریقوں نے issues strategic پر اپنی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی اور دونوں ممالک موجودہ اسٹرٹیجک تعاون اور دو طرفہ تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے لیے ایک جامع اور ٹھوس لائحہ عمل پر عمل پیرا نظر آتے ہیں۔
سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات نہ صرف سیاسی و اقتصادی بلکہ مذہبی اور سیکیورٹی پہلوؤں سے بھی اسٹرٹیجک ہیں۔ دونوں ملکوں کی قیادت ایک ایسے معاہدے پر دستخط کرچکی ہے، جس کے تحت کسی ایک پر حملہ دوسرے پر حملہ تصورکیا جائے گا۔ مشترکہ اسٹریٹجک مشترکہ دفاعی معاہدہ اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ یہ ایٹمی اور میزائل دفاعی نظام کو بھی شامل کر سکتا ہے، پاکستان ہمیشہ اپنی ایٹمی اور میزائل پروگرام کو ’’ اسٹرٹیجک اثاثے‘‘ کہتا رہا ہے۔اقتصادی شراکت داری کا ایک اور اہم پہلو سرمایہ کاری ہے۔
حالیہ برسوں میں سعودی عرب نے پاکستان میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کی دلچسپی ظاہر کی ہے۔ توانائی، معدنیات، زراعت، ریفائنری اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبے سعودی سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش ہیں۔ پاکستان کے خصوصی اقتصادی زونز (SEZs) اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے منصوبے سعودی سرمایہ کاروں کو جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے بازاروں تک رسائی کے نئے مواقع فراہم کر سکتے ہیں، اگر پاکستان سعودی سرمایہ کاری کے لیے ایک محفوظ، شفاف اور پائیدار ماحول فراہم کرنے میں کامیاب ہو جائے تو یہ سرمایہ کاری نہ صرف روزگار کے مواقع پیدا کرے گی بلکہ معیشت کی مجموعی کارکردگی میں نمایاں بہتری لائے گی۔علاقائی تناظر میں بھی پاکستان اور سعودی عرب کی اقتصادی شراکت داری کے اثرات دور رس ہو سکتے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ میں امن و استحکام کے لیے اقتصادی تعاون ایک کلیدی عنصر کے طور پر ابھر رہا ہے۔ سعودی عرب کی قیادت میں خلیجی ممالک جس تیزی سے جدید اقتصادی ماڈل کی طرف بڑھ رہے ہیں، وہاں پاکستان کا کردار ایک پل کی مانند ہو سکتا ہے جو مشرقِ وسطیٰ، جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کو جوڑنے کا کام کرے۔ پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن اسے توانائی، تجارت اور نقل و حمل کے لیے ایک قدرتی راہداری بناتی ہے۔ اگر سعودی سرمایہ کاری کے ذریعے اس انفرااسٹرکچر کو مزید بہتر بنایا جائے تو دونوں ممالک کے لیے نہ صرف دوطرفہ بلکہ علاقائی سطح پر بھی بے پناہ فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔اس اقتصادی شراکت داری کے فروغ میں کچھ چیلنجز بھی موجود ہیں۔ پاکستان کو اپنی معاشی پالیسیوں میں تسلسل، شفافیت اور استحکام لانے کی ضرورت ہے ۔
قانونی اور انتظامی رکاوٹوں کو کم کر کے سرمایہ کاری کے عمل کو آسان بنانا ہوگا۔ اقتصادی شراکت داری کے ایک اور پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اور وہ ہے ٹیکنالوجی اور علم کا تبادلہ۔ سعودی عرب تیزی سے ایک جدید، ہائی ٹیک معیشت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت، ڈیجیٹل معیشت، گرین انرجی اور اسمارٹ انفرا اسٹرکچر کے شعبوں میں سعودی حکومت نے بڑے اہداف مقرر کیے ہیں۔ پاکستان کے نوجوان اس ڈیجیٹل انقلاب میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اگر حکومت دونوں ممالک کے درمیان تکنیکی تعاون کے فروغ کے لیے ایک مربوط حکمت عملی تیار کرے۔ سعودی عرب کی یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کے ساتھ اشتراک، پاکستانی طلبہ کے لیے تعلیمی اسکالرشپ، اور مشترکہ تحقیقی منصوبے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید گہرا کر سکتے ہیں۔
پاکستان کے لیے سعودی عرب کے ساتھ اقتصادی شراکت داری کا ایک اور فائدہ سفارتی اور تزویراتی سطح پر بھی ہے۔ سعودی عرب عالمی توانائی مارکیٹ میں ایک فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے اور اس کے ساتھ مضبوط تعلقات پاکستان کو بین الاقوامی فورمز پر بھی ایک مضبوط موقف اختیار کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ اسی طرح اسلامی تعاون تنظیم (OIC) اور دیگر مسلم ممالک کے فورمز پر دونوں ممالک کے ہم آہنگ موقف سے عالمِ اسلام کے مشترکہ مفادات کو تقویت ملتی ہے۔
پاکستان کی طرف سے پاکستان میں سعودی عرب کی ممکنہ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کو تیزی سے آگے بڑھانے میں زیادہ سے زیادہ تعاون اور سہولت فراہم کرانے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ دونوں ملکوں کے وفود نے اعلانات کو ٹھوس اقتصادی نتائج میں بدلنے کے لیے دو طرفہ نفاذ کے طریقہ کار کو بھی حتمی شکل دی ہے۔ درحقیقت دونوں ممالک محض جذباتی یا مذہبی رشتے تک محدود نہیں رہنا چاہتے بلکہ عملی اور معاشی بنیادوں پر تعلقات کو نئی جہت دینا چاہتے ہیں۔ معاشی و تجارتی اور دفاعی تعاون۔ سعودی عرب پاکستان کو تیل اور توانائی کے شعبے میں بڑے پروجیکٹس کی پیشکش کر رہا ہے۔ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان کے توانائی بحران کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ زرعی شعبے میں بھی سعودی سرمایہ کار دلچسپی رکھتے ہیں۔
سعودی عرب اپنی فوڈ سیکیورٹی کے لیے پاکستان کی زرخیز زمینوں اور افرادی قوت کو بروئے کار لا سکتا ہے۔ پاکستانی محنت کش سعودی عرب کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لاکھوں پاکستانی سعودی عرب میں کام کر کے ہر سال اربوں ڈالر زرمبادلہ اپنے وطن بھیجتے ہیں۔ سی پیک میں سعودی شمولیت پاکستان کی اقتصادی راہداری کو مزید مضبوط بنا سکتی ہے۔
توانائی منصوبے سعودی سرمایہ کاری سے پاکستان کا توانائی بحران کم ہو سکتا ہے۔ زرعی شعبے میں مشترکہ منصوبے دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہوں گے۔ ٹیکنالوجی اور تعلیم کے میدان میں تعاون نئی نسل کو مواقع فراہم کرے گا۔ سعودیہ عرب کے ساتھ دیرینہ اور آزمودہ دوستی پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم عنصر ہے ۔ اس تناظر میں یہ امید کی جاتی ہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف کا حالیہ دورہ سعودی عرب، آنے والے مہینوں میں پاکستان کی اقتصادی ترقی کے امکانات میں مزید اضافہ کرے گا۔
